کالم

پاکستان میں وبا پھیلانے کا قصوروار کون؟

اپریل 3, 2020 2 min

پاکستان میں وبا پھیلانے کا قصوروار کون؟

Reading Time: 2 minutes

افضال خان

خدا کے لیے وبا پھیلانے میں زائرین یا تبلیغی جماعت یا کسی پاکستانی شہری کو الزام دینے کے بجائے حکومت سے سوال کریں کہ وہ کیوں اپنے شہریوں کو بروقت معلومات نہ دے سکی، آگاہ نہ کرسکی۔ کیوں وزیراعظم نے کنفیوژن پھیلائے رکھی اور ابھی تک اس بیماری کے متعلق لوگوں کو کنفیوژ کر رہے ہیں۔

اپنی تقاریر میں غلط معلومات اور جھوٹی تسلیاں دے کر نہ صرف عوام کو گمراہ کیا بلکہ لاکھوں افراد کی زندگی داو پر لگا دی حالانکہ سب کے سامنے کئی یورپی ملکوں اور امریکہ کی غیرسنجیدگی اور جھوٹے دعووں کے نتائج کی عبرتناک مثالیں موجود تھیں۔

جن ممالک کے سربراہان نے اس معاملے کو شروع میں غیرسنجیدگی سے لیا اور سائنسدانوں و طبی ماہرین کی آراء کا مذاق اڑایا یا انہیں پس پشت ڈال کر ایسے بیانات دئیے اورتقریریں کیں کہ ان ممالک کے سائنسی شعور رکھنے والے عوام میں بھی غیرسنجیدگی اور لاپرواہی کا شکار ہوئے تو نتیجہ پوری دنیا کے سامنے ہزاروں اموات اور لاکھوں بیماروں کی شکل میں آ گیا۔

پاکستان میں اس معاملے زائرین یا تبلیغی جماعت یا راشن کے لئے جوق در جوق بھاگتے کسی بھی مزدور و غریب شخص کو ہی مورد الزام ٹھہرا کے ان کی تضحیک نہ کریں بلکہ وزیراعظم سے سوال کریں کہ اس شخص نے ایک ایسے ملک میں جہاں پہلے ہی لوگوں میں سائنسی شعور و شرح خواندگی انتہائی کم ہے اور جوپڑھے لکھے ہیں وہ بھی سائنسی حقائق پر کسی حکیم کی یا نامعلوم پیر یابزرگ کے نام پر پھیلائی گئی افواہ کو زیادہ تیزی سے قبول کرکے عمل کرتے ہیں ، وہاں کا وزیراعظم اگر مزید کنفیوژن پھیلائے گا تو مسائل بڑھیں گے اور ویسے ہی حالات پیدا ہوں جیسے آپ کو آج نظر آ رہے ہیں۔

حکومت اور خاص طور پر وزیراعظم کا یہ دعویٰ ہے کہ انہوں نے پندرہ جنوری سے خطرے کو بھانپ لیا تھا تو پھر اس کو سنجیدگی سے کیوں نہ لیا اور لوگوں تک درست معلومات نہ پہنچانا جرم نہیں؟ کیا وزیراعظم کو اپنے معاشرے کی بُنت کے بارے میں معلوم نہیں تھا کہ یہاں کس سوچ اور مزاج کے لوگ رہتے ہیں اور انہیں سائنسی حوالے سے قائل کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے ،تو اس پر بروقت کیا کام کیا گیا؟

معلومات ندارد ، جب پندرہ جنوری سے آپ اس خطرے سے آگاہ تھے تو پھر تبلیغی اجمتاع بھی ہو جاتا ہے اور وہاں سے ہزاروں جماعتیں پورے ملک کے مختلف علاقوں اور دنیا کے کئی ممالک کے لیے نکل پڑتی ہیں ، زائرئن ایران وعراق سے واپس آتے ہیں، ہزاروں لوگ عمرہ کرکے لوٹتے ہیں، سینکڑوں پاکستانی بیرون ممالک سے پاکستان واپس آتے ہیں تو ان کو چیک کرنے کے آپ نے کون سے ایسے اقدامات کئے ؟

لگتا ہے کہ ہمارے وزیراعظم نے بچپن میں اقوال زریں کا کوئی کتابچہ پڑھ لیا تھا جس میں کچھ ایسی باتیں درج تھیں کہ ’لیڈر ہمیشہ بڑے فیصلہ کرتا ہے، سب مل کر مصیبت کا مقابلہ کریں گے ، گھبرانا نہیں، کبھی ہمت نہ ہارنا ‘ وغیرہ وغیرہ اور گزشتہ کئی برس سے بغیر کوئی عملی قدم اٹھائے ان جملوں کی تکرار کرتے رہتے ہیں۔ کوئی جائے اور وزیراعظم صاحب کو پریکٹیکل کتابچہ دے کر آئے کہ جس میں کوئی کام عملی طور پر کرنے کے اقوال درج ہوں ۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے