ٹرمپ نے اہم سمندری گزرگاہ ’پانامہ کینال‘ واپس لینے کی دھمکی کیوں دی؟
Reading Time: 2 minutesامریکہ کے نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پانامہ کینال سے گزرنے والے امریکی بحری جہازوں کے لیے غیرمنصفانہ فیسوں کو تنقید کا نشانہ بنایا اور دھمکی دی کہ وہ آبی گزرگاہ کا کنٹرول واشنگٹن کو واپس کرنے کا مطالبہ کریں گے۔
خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ نے پانامہ کینال کے ارد گرد چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کی طرف بھی اشارہ کیا جو امریکی مفادات کے لیے تشویشناک ہے۔
امریکہ کی کمپنیاں اپنے کاروباری خام مال اور سامان کی بحر اوقیانوس اور بحرالکاہل کے سمندروں کے درمیان منتقلی یا ترسیل کے لیے اس گزرگاہ پر انحصار کرتی ہیں۔
ٹرمپ نے اپنے ’ٹرتھ سوشل‘ پلیٹ فارم پر ایک پوسٹ میں لکھا کہ ’ہماری بحریہ اور تجارت کے ساتھ انتہائی غیرمنصفانہ سلوک کیا گیا ہے۔ پانامہ کی جانب سے جو فیسیں وصول کی جا رہی ہیں وہ مضحکہ خیز ہیں۔‘
نومنتخب صدر نے کہا کہ ’ہمارے ملک سے یہ لوٹ مار فوری روک دی جائے۔‘
پانامہ کینال جسے 1914 میں امریکہ نے مکمل کیا تھا، سنہ 1977 میں ڈیموکریٹ پارٹی کے صدر جمی کارٹر کے دستخط شدہ معاہدے کے تحت وسطی امریکہ کے ملک پانامہ کو واپس کر دی گئی تھی۔
پانامہ نے سنہ 1999 میں اس آبی گزرگاہ کا مکمل انتظامی کنٹرول حاصل کر لیا تھا۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ اس آبی گزرگاہ کا ’انتظام صرف پانامہ نے سنبھالنا تھا، چین یا کسی اور نے نہیں۔‘ اُن کا کہنا تھا کہ ’ہم اسے غلط ہاتھوں میں نہیں جانے دیں گے اور کبھی ایسا نہیں ہونے دیں گے۔‘
نومنتخب امریکی صدر نے مزید کہا کہ اگر پانامہ چینل کے ’محفوظ، مؤثر اور قابل اعتماد آپریشن‘ کو یقینی نہیں بنا سکا، ’تو پھر ہم مطالبہ کریں گے کہ پانامہ کینال ہمیں مکمل طور پر اور بغیر کسی سوال کے واپس کی جائے۔‘
پانامہ کے حکام نے ٹرمپ کی پوسٹ پر فوری طور پر کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا۔
اگرچہ وہ باضابطہ طور پر اگلے ماہ جنوری کے اواخر میں اپنا عہدہ سنبھالیں گے، لیکن اس کے باوجود ڈونلڈ ٹرمپ صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ کے آخری دنوں میں اپنا سیاسی اثر و رسوخ بڑھا رہے ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے ریئل اسٹیٹ بزنس سے خود کو منوایا اور ایک کاروباری شخصیت کے طور پر وہ امریکی کاروباری مفادات کے لیے لڑائی لڑنے کی منفرد شناخت رکھتے ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق عالمی سمندری ٹریفک کا پانچ فیصد پانامہ نہر سے گزرتا ہے۔
یہ آبی گزرگاہ ایشیا اور امریکی مشرقی ساحل کے درمیان سفر کرنے والے بحری جہازوں کو جنوبی امریکہ کے جنوبی سرے کے گرد طویل اور خطرناک راستے کو اختیار کرنے کا متبادل راستہ فراہم کرتی ہے۔
اس نہر سے گزرنے والے زیادہ تر بحری جہاز امریکہ، چین، جاپان اور جنوبی کوریا کے ہیں۔
پانامہ کینال اتھارٹی نے اکتوبر میں رپورٹ کیا کہ آبی گزرگاہ کو گزشتہ مالی سال میں تقریباً 5 بلین ڈالر کی ریکارڈ آمدن ہوئی۔