کالم

جرمنی وائرس کو شکست دے چکا؟

اپریل 10, 2020 7 min

جرمنی وائرس کو شکست دے چکا؟

Reading Time: 7 minutes

دہسار ملک ۔ جرمنی

(آخری قسط)

کرونا یا جنگ عظیم سوم بپا ہے؟

مارچ 2020 کے آخر میں جب جرمنی کی حکومت ضروریات زندگی کی طلب اور رسد سب کو یقینی بنا چکی اور ہسپتالوں اور صحت کے نظام کو اطمینان بخش بنا چکے اور عوام سے خود احتسابی کے تحت ان کا سماجی فاصلے پر مبنی لاک ڈاؤن کروا چکے تو اس سے اپریل کے شروع میں ہی نتائج برآمد ہونا شروع ہوگئے۔ یہ لاک ڈاؤن حکومت کی اپیل پر لوگوں نے خود ہی کیا تھا۔ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت یہ بات کی جا چکی تھی کہ کون سی جگہوں پر مکمل کام ہوگا، کہاں گھر سے اور کہاں جزوی اور کہاں بالکل کام نہیں ہوگا۔ یہاں پر عوام کی طرف سے نہ ہونے کے برابر مزاحمت دیکھنے میں آئی، جبکہ یہی مزاحمت اٹلی اور سپین میں کافی زیادہ تھی۔

میں یہاں لاک ڈاؤن کو نہ کریک ڈاؤن، نہ کرفیو اور نہ ہی بریک ڈاؤن کہوں گا۔ یہ صرف ایک قوم کی قانونی پاسداری کا امتحان تھا جس امتحان میں جرمن پوری طرح سے پورے اترے۔

اس آخری قسط کو لکھنے سے پہلے میں نے دو دن کا انتظار صرف اس لیے کیا کہ میں نے جن ٹارگٹس کا ذکر پچھلی قسط میں کیا تھا ان کو مزید فالو کرنا چاہتا تھا۔

مریضوں کی تعداد دگنا ہونے کی رفتار بیس روز کے قریب پہنچ چکی ہے۔ دو افراد سے ایک فرد کو لگنا بھی ایک آدھ روز کے فاصلے پر ہے۔ ہسپتالوں میں کرونا کے مریضوں کی تعداد تیزی سے کم ہونا شروع ہو گئی ہے کہ ٹھیک ہونے والے نئے مریضوں سے کہیں بڑھ چکے ہیں۔
اب ایسا محسوس ہورہا ہے کہ آئندہ پانچ سے چھ دن میں حتمی ٹارگٹ بھی حاصل ہو جائیں گے۔

سب سے بڑا مسئلہ جو جرمنی کے ساتھ ہے اور پوری دنیا کے ساتھ کہیں بڑھ کر ہے ہے، وہ ہے معاش کا مسئلہ۔ ویسے تو جرمنی میں دیہاڑی دار بہت زیادہ نہیں ہیں، لیکن اس کے باوجود بھی ایسی بہت سی کمپنیاں ہیں کہ جہاں پر لوگ پارٹ ٹائم کام کرتے ہیں اور اگر فل ٹائم بھی کریں تو جب ان کی کمپنی کے پاس کرنے کے لیے کوئی کام نہیں ہوگا تو ان کو اپنی جمع پونجی سے لوگوں کی تنخواہ دینی پڑے گی اور کمپنیاں خود ڈوب جائیں گی۔

اس پہلے میں ایک بات بتاتا چلوں کہ جرمنی میں ایسے حالات میں نظریاتی برساتی مینڈک کبھی سامنے نہیں آئے، جو المیوں کے انتظار میں ہوتے ہیں اور اپنی دکانداری شروع کردیتے ہیں، مدد اور چیریٹی کے نام پر اور اس سے اپنے سیاسی اور نظریاتی فوائد حاصل کرتے ہیں۔

یہ نہیں کہ جرمنی میں چیریٹی نہیں ہوتی یا چیرٹی والے ادارے نہیں ہیں لیکن ان اداروں کو یہ سب کام کرنے سے پہلے حکومت سے خصوصی اجازت لینا پڑتی ہے اور یہ اجازت ملنا آسان کام نہیں ہوتا، اس میں بہت وقت لگتا ہے۔

جرمنی میں چیریٹی کا کام ٹیکس سے منہا ہے اور لوگ اس مد میں پیسے دے کر اپنا ٹیکس بچا سکتے ہیں۔ اسی لیے یہاں ایسا کام کرنے کے لیے ریونیو کے محکمے سے پیشگی اجازت لینا پڑتی ہے- 2004 کے سونامی میں دنیا میں سب سے زیادہ مدد جرمنی کے پرائیوٹ افراد نے کی تھی اور اپنی چیریٹی کی تنظیموں کے ذریعے سے 2005 کے پاکستان کے زلزلے میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا تھا۔

2008 میں امریکہ میں بینکوں کا مالی بحران آیا جو پھیلتا پھیلتا ساری دنیا میں پھیل گیا۔ اس بحران میں صرف انتہائی غریب ملک بچے تھے۔ کہنے کو انسان یہ سوچ سکتا ہے کہ اس بحران میں عام آدمی کا کیا نقصان تو یہاں یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ بینکوں میں انسان کا سرمایہ اسٹیٹ بینک کی طرف سے صرف ایک حد تک ہی محفوظ ہوتا ہے جو ساری دنیا میں 10000 سے 40000 ڈالر کے درمیان ہے، یعنی اس بحران سے جن کے پاس اوسط 20000 ڈالر بینک میں رکھے تھے، وہ تو محفوظ تھے، اس سے زیادہ والے افراد شائد محروم ہونے جا رہے تھے- ایسا ہوتا تو بینکوں کی ساکھ متاثر ہوجاتی اور آئندہ لوگ کبھی اپنے پیسے بنکوں میں نہ رکھتے، بلکہ سارے کا سارا جدید دنیا کا مالی نظام جھاگ کی طرح بیٹھ جاتا- اس لیے بینکوں کو بچانا ضروری تھا۔

اس مالی بحران کے بعد کی دنیا میں معاشی ایکٹیوٹی انتہائی کم ہوگئی تھی- جس کی وجہ سے بینکوں کے ساتھ ساتھ بہت ساری کمپنیاں بھی دیوالیہ ہونے کے قریب کھڑی تھیں- کمپنی دیوالیہ ہونے سے لوگ بےروزگار ہو سکتے تھے وغیرہ وغیرہ- یعنی پورا نظام داؤ پر لگا تھا اور ساری دنیا میں ایسا ہوا بھی، پرتگال، آئرلینڈ، اٹلی، یونان جیسے ملک آج بھی اس میں سے ٹھیک سے نہیں نکل پائے۔ ساری دنیا میں اس وقت بھی جرمنی صرف ایک سے ڈیڑھ سال کے اندر اس بحران سے باہر نکل کر ساری دنیا کو لیڈ کر رہا تھا اور جرمنی کو بلکہ اس بحران کا دوسرے ملکوں سے موازنہ کریں تو فائدہ ہوا کہ جرمنی کا ان ملکوں سے معاشی استحکام کافی بڑھ گیا۔

ایسا کیوں کر ہوا؟

یہاں پر بھی جرمنی کی دور اندیشی کام آئی اور برے وقت کے لیے کی گئی قانون سازی بھی۔ جرمنی میں ایک قانون ہے، جس کے مطابق اگر کسی بحران کو حکومتی سطح پر بحران تسلیم کرلیا جائے، تو ایسے میں کمپنیاں اس بحران کا سہارا لے کر اپنے بہت سے ملازموں کو جزوقتی یا کل وقتی طور پر گھر بٹھا سکتی ہیں اور ایسا کرنے پر ان کو تنخواہ نہیں دینی پڑتی بلکہ ان کی 60 سے 67 فیصد تنخواہ جرمن حکومت دیتی ہے۔ اچھی اور بڑی کمپنیاں 20 فیصد اپنے پاس ڈالتی ہیں- ٹیکس کو نظر انداز کر دیا جائے تو لوگوں کو گھر بیٹھے اپنی تنخواہ کا دس فیصد نقصان بھی نہیں ہوتا- 2008 میں لوگوں کو اوسط دو مہینے تک تنخواہ حکومت کو دینی پڑی تھی- اس کے علاوہ وہ جرمنی میں فی بچہ سو یورو اور فیملی پارٹنرز کو 500 یورو یکمشت ادا کر دیئے گئے تاکہ وہ ان پیسوں سے خریداری کریں اور مارکیٹ پر کہیں سے بوجھ نہ پڑے- ایسا کرنے سے جرمنی کی ہر پروڈکشن کمپنی پہلے سے کہیں زیادہ بہتر چلنے لگی اور گورنمنٹ کو ایک سال کے اندر اندر یہ سارے پیسے دوبارہ سے ٹیکس کی صورت میں وصول ہوگئے۔


کرونا کا مالی بحران اس سے زیادہ بڑا مالی بحران ہے- اس بحران میں میں جرمنی کی حکومت کے اندازہ میں یہ بحرانی تنخواہیں اوسط چار سے پانچ مہینے تک ادا کرنی پڑ سکتی ہیں- یہاں بھی امید کی جاتی ہے کہ جرمنی اپنی مالی پوزیشن باقی دنیا سے مزید مستحکم کر لے گا- مختصر یہ کہ جرمنی کی عوام میں سے شاید ہی کوئی ایسا ہو جو اس وقت ذاتی طور پر کسی بھی مالی بحران کا شکار ہو سکے- اس بحران کے لئے جرمنی کی حکومت اب تک قریب قریب 500 ارب یورو مختص کر چکی ہے- اور یہی رقم بحران کے بعد ٹیکسوں کی شکل میں عوام پر ان کی آمدنی کے حساب سے منتقل کر دی جائے گی- جس سب خوش اور راضی رہیں گے۔

امید کی جاتی ہے کہ اس بحران کے بعد جرمنی اپنے معاملات میں چار سے پانچ مہینے وقت سے پیچھے چلا جائے گا- جبکہ دنیا کئی سال پیچھے، کچھ ملک تو دہائیاں پیچھے۔

جرمنی اپنے چند ہزار افرد اس قدرتی آفت میں کھو چکا ہو گا- جبکہ باقی دنیا کئی لاکھ افراد-
پاکستان جیسے ممالک میں تو لاک ڈاؤن سماجی فاصلہ کو سماجی خلیج بلکے سماجی کھائی بنانے جا رہے ہیں- کیوںکہ لوگ ابھی سے ہی مالی مشکلات کے ہاتھوں ایک دوسرے کو کھانے کو دوڑ رہے ہیں –

اس بحران سے نمٹنے کے لیے جرمنی (حکومت اور عوام) نے جو کام نہیں کیے
کسی قسم کے وحشت یا ہیجان کو اکسایا اور نہ ہی عوام اس کیفیت پر پہنچے
کسی ملک کو اس بحران کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا- کوئی سازشی تھیوری تیار نہیں کی، کوئی سیاسی جنگ کی نا ہی کوئی پوائنٹ سکورنگ-
کسی بڑے سے بڑے دانشور، ڈاکٹر یا پروفیسر نے انفرادی ویڈیوز سے آدھی معلومات نہیں پھیلائیں اور اگر ایسا کچھ کیا یا تو لوگوں نے اس پر کان نہیں دھرا-
انفرادی طور پر ایسا کچھ ہوا بھی تو قوت مدافعت کو بڑھانے کے علاوہ کسی قسم کے کے مبہم-
مشورے نہیں دئیے، جیسے گرم پانی پینا، بھاپ لینا یا کلونجی کی چائے پینا وغیرہ وغیرہ- ایسے مشوروں کی ویڈیوز تو باقاعدہ جان ہاپکن کے ڈاکٹروں نے بھی بنا کر نیٹ پر ڈالیں –
دوسری بیماریوں سے موازنہ اور کرونا کو بے ضرر قرار دے کر عوام میں غیرسنجیدہ پن کو فروغ دینا-

کرونا کے بحران سے نمٹنے کے لیے جرمنی میں جو کام کئے گئے
.
لوگوں کو ان کے انجانے خوف سے نجات دلائی اور بعد از بحران کے لیے عملی اقدامات اٹھائے کہ کسی کو مالی وسائل یا مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے

صرف اور صرف اپنے کام پر فوکس اور انتہائی ایمانداری سے ٹیم ورک کو پہلے سے زیادہ مثالی بنانا

کرونا سے نمٹنے کے ساری دنیا کے اجتمائی مسائل جس پر کرونا پر بڑی حد تک قابو پانے کے بعد بھی کام جاری رہے گا۔
تیزترین ٹیسٹ کٹ کی تیاری جس سے کسی بھی انسان میں مرض کی انتہائی ابتدا میں وائرس کا وثوق سے پتہ چلانا ، یہ کام آئندہ دو تین ہفتے میں مکمل ہو جائے گا
"Tamiflu”
ٹیمیفلو طرز کی دوا جس سے فوری طور پر اس کا علاج کیا جا سکے، یہ دوا آئندہ چند مہینے میں متوقع ہے۔

ویکسین کی تیاری ، یعنی کم قوت مدافعت کے افراد کو یا کورونا کے مریضوں کے ارد گرد کے افراد کو کورونا سے بچایا جا سکے۔ اس کی امید سال سے دو سال تک کی جا سکتی ہے۔

صاحب تحریر کا تعارف: نام حادثاتی ہے اور سوشل میڈیا پر مزید بدنامی کے ڈر سے اصل نام سے اجتناب کرتے ہیں۔ گزشتہ چوتھائی صدی سے زیادہ عرصے سے جرمنی میں مقیم ہیں۔ لاہور سے الیکٹریکل انجینرنگ اور تین سال سرکاری نوکری میں چار شو کاز نوٹس وصول کرنے کے بعد، فالتو تعلیم کے لیے جرمنی چلے گئے۔ جرمنی سے عشق ہو گیا اور وہیں کے ہو گئے۔ بچوں کا پیٹ چپ ڈیزائننگ سے پالتے ہیں اور اپنی روٹیاں دوستوں کی محفل میں خواہ مخواہ کا شور ڈال کر توڑتے ہیں۔ زبان درازی و بدتمیزی سے احباب نالاں ہو جائیں تو قلم کا سہارا لینے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ پڑھتے کم ہیں اور لکھتے زیادہ۔ مبالغہ ناپ تول کر کرتے ہیں اور پطرس بخاری کے متاثرین میں شامل ہیں۔ ہر کسی کی ہاں میں اپنی ناں ضرور ملاتے ہیں اور ہر رنگ میں بھنگ۔ بسیار خوری کی وجہ سے پکانے کا شوق ضرورت سے زیادہ ہے اور مقامات آہ و فغاں کی تلاش میں اپنے آپ کو سیاح کہلوانے پر بضد ہیں۔ صنف نازک سے گفتگو کرتے وقت گھڑی دیکھتے ہیں نہ اوقات۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے