کالم

وائرس کے داخلی سیاست پر اثرات

اپریل 30, 2020 6 min

وائرس کے داخلی سیاست پر اثرات

Reading Time: 6 minutes

ثنا اللہ بھٹی

کرونا وائرس پر جس شدت سے سائنسی بنیاد پر بحث ہو رہی ہے, اس سے کہیں زیادہ اس کے سیاسی پہلو نمایاں ہورہے ہیں۔ عالمی سطح پر اس کا رجحان منفی طور پر بین الاقوامیت کی بجائے ریاست کی طاقت پر انحصار کی طرف تو بڑھا ہی ہے لیکن داخلی طور پر بھی کم و بیش منفی پہلو کو مثبت طرز فکر پر غلبہ حاصل ہے۔ اکثر ممالک میں دائیں بازو کی انتہا پسند سوچ کا حامل طبقہ وائرس کے پھیلاؤ میں ایک طرف حریف ریاستوں پر الزام تراشی کر کے دشمنی والا تاثر بنا رہا ہے تو دوسری طرف ملک میں موجود غیرملکی, مہاجرین اور مخصوص مذہبی طبقات پر نسل پرستانہ اور متشدد توہین آمیز رویہ اختیار کر رہا ہے. چنانچہ ان رجحانات کے عکس داخلی سیاسی صورتحال پر بھی پڑ رہے ہیں جس سے ماہرین اس بات پر متفق پائے جاتے ہیں کرونا وائرس ناگزیر طور پر اندرونی سیاسی ڈھانچوں میں سیاسی اثرات مرتب کرے گا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ کرونا وائرس کو سائنسی نکتے سے سیاسی نکتے کی طرف بدلنے میں بنیادی کردار لاک ڈاؤن کا ہے. لاک ڈاؤن ہر متاثرہ ریاست کے لئے ایک کٹھن فیصلہ ہے. یہی وجہ ہے کہ اس کی افادیت اور نقصانات پر چھڑنے والی بحث ہی نئ سیاسی صورتحال تشکیل دے رہی ہے.

کرونا وائرس کے سبب لاک ڈاؤن کا بنیادی مقصد حکومتوں کے نزدیک اس اچانک افتاد سے نمٹنے کے لئے بھرپور تیاری کا وقت لینا تھا. چونکہ لاک ڈاؤن کے سبب وائرس کی رفتار سست پڑنی تھی اسی دوران حکومتیں صحت کے متعلق بھرپور اقدامات اٹھانے کی حالت میں آجاتیں. ان اقدامات میں بنیادی کردار ٹیسٹ کی استعداد بڑھانے, اسپتالوں میں مناسب حفاظتی آلات کی فراہمی اور وسیع پیمانے پر قرنطینہ سنٹرز کی دستیابی کو یقینی بنانے کا تھا. تاہم بہت سے ممالک میں صحت کا شعبہ عرصہ دراز سے نظرانداز ہونے کے سبب مناسب تیاری ممکن نہیں ہوسکی. اس ناکامی اور کوتاہی کے سبب عوام پر لاک ڈاؤن کی بنا پر پڑنے والا معاشی دباؤ بڑھ رہا ہے جس کی وجہ سے ان کا حکومتوں پر اعتماد کو زک پہنچ رہی ہے.
سازشی اور سطحی بحثیں تو لاک ڈاؤن کے ساتھ ہی اپنی موت آپ مرجائیں گی لیکن اس کے بعد کی سیاسی صورتحال پر سنجیدہ حلقے اس بنیادی نکتے پر غور کر رہے ہیں دفاع اور سیکیورٹی کے نام پہ بجٹ کا ایک بہت بڑا حصہ خرچ کرنے کے باوجود ریاستیں اپنی عوام کو جانی اور مالی نقصانات سے نہیں بچا پا رہیں. یہ لاک ڈاؤن ان شدت پسند خیالات کے لوگوں کو خبردار کے لئے کافی ہے جو تحفظ کی ضمانت اندھا دھند سیکیورٹی اخراجات کو سمجھتے ہیں. مہلک ہتھیار اور جدید اسلحہ کبھی بھی تعلیم, صحت اور معاشی کفالت جیسے بنیادی انسانی بہبود کے امور کا نعم البدل نہیں ہوسکتے. امریکہ, برطانیہ, بھارت, ایران اور پاکستان کی عوام جرمنی, جنوبی کوریا اور سنگاپور جیسے ممالک پر رشک کر رہی ہیں جنہوں نے کرونا وائرس کو اپنی بہترین نظام صحت کی بدولت شکست دی. پاکستان میں یہ بحث اس اعتبار سے بھی دلچسپ ہے کہ کمزور معاشی ڈھانچے پر کھڑا یہ ایٹمی ملک بائیس سال قبل اپنی انتہائی دفاعی طاقت کے حصول کے باوجود تاحال سماجی بہبود اور معاشی ترقی کو اپنی ترجیحات میں شامل نہ کرنے پر کیا عذر پیش کرتا ہے. کرونا وائرس کا زور ٹوٹنے کے بعد ماہرین میں اس اصولی نکتے پر مباحثہ ناگزیر تو ہے لیکن اس کی کامیابی کا انحصار ملک کی سیاسی و دفاعی منشا پر ہے.

ایک اور نمایاں پہلو جو پوسٹ کرونا وائرس حالات میں اجاگر ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے وہ لاک ڈاؤن پر حکومتی رویے کا ہے. اس وقت دنیا میں کرونا وائرس کے سبب لاک ڈاؤن کے تین ماڈلز پیش نظر ہیں. پہلا ماڈل چین کا ہے جو ایک سخت گیر لاک ڈاؤن کی حمایت کرتا ہے. یہ ماڈل بنیادی انسانی حقوق پر ریاستی جبر کو برتری دیتا ہے لیکن اپنے جبر کی وجہ سے اکثر جمہوری ملکوں کو یہ ماڈل پسند نہیں آیا اس لئے اس کی پیروی بھی بہت کم ہورہی ہے. دوسرا ماڈل لچکدار لاک ڈاؤن کا ہے جس کو انڈیا, ترکی, برطانیہ, یورپ سمیت بہت سے ایشیائی اور ساؤتھ امریکی ممالک نے اپنایا ہے. اس لاک ڈاؤن میں خصوصی طور پر ایک متفقہ اور واضح لائحہ عمل کے تحت ریاستی مشینری کے فرائض اور عوام کے حقوق کا ایک متوازن طریقہ کار رائج ہے. ریاستی احکامات کے مطابق عوام کو لاک ڈاؤن کی پابند ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ حقوق کو یقینی بناتے ہوئے ضروریات زندگی کے کم سے کم حصول کی حد تک آزادی بھی میسر ہے. تیسرا ماڈل پاکستان اور امریکہ نے پیش کیا ہے جو کہ جزوی لاک ڈاؤن کے قریب قریب ہے. اس میں وفاق نے لاک ڈاؤن کی مخالفت کی ہے مگر سیاسی اکائیوں نے لاک ڈاؤن نافذ کیا ہے. ان تینوں ماڈلز میں سے تیسرے ماڈل میں ممکنہ طور پر مستقبل میں سیاسی اثرات زیادہ شدت سے محسوس کئے جانے کا خاطر خواہ مواد موجود ہے.

سیاسی اعتبار سے یہ ایک طے شدہ اصول ہے کہ نامساعد حالات میں وفاق کی طاقت ہمیشہ بڑھتی ہی ہے. ایمرجنسی حالات ملک کے چیف ایگزیکٹو کو ایک مثالی ماحول دیتے ہیں. اسے اپنے احکامات صادر کرنے اور عملدرآمد کے لئے نہ تو پارلیمانی جوابدہی کا ڈر رہتا ہے, نہ ہی عدلیہ کی جانب سے بنیادی انسانی حقوق یا آئینی موشگافیوں کی علتوں کا سامنے کرنا پڑتا ہے. اس کا ہر فیصلہ ایمرجنسی حالات کے سبب خودبخود قابل جواز ہوتا ہے. چنانچہ اس وقت دنیا بھر میں کرونا وائرس کی بدولت پارلیمنٹ غیر فعال ہے, عدلیہ انتظامی طاقت بڑھانے پر زور دے رہی ہے, میڈیا کا تمام تر فوکس انتظامی فیصلوں پر ہے اور اس کے ساتھ ہی معاشی وسائل پر بھی استعمال کی آزادی میسر ہے. نریندر مودی, ولادیمیر پوٹن اور طیب اردوگان جیسے حاکمانہ رویے کے حامل جمہوری سربراہان اس موقع کو اپنی سیاسی طاقت بڑھانے کے لئے استعمال کر رہے ہیں. انہوں نے بلاجھجھک لاک ڈاؤن کا فیصلہ کیا ہے. اس سے نہ صرف ان کی مقبولیت بڑھی بلکہ ان کے خلاف ہونے والے عوامی احتجاج اور ہنگاموں کے خاتمے کا بھی جواز مل گیا.

تاہم تیسرے ماڈل کے پاکستانی نکتہ نظر کو پرکھا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان کے وزیراعظم لاک ڈاؤن کی سنجیدگی کو مضبوط کرنے میں شاید کچھ وقت دینے کے متمنی تھے کہ صوبوں نے ازخود لاک ڈاؤن کا فیصلہ کرلیا. سیاسی روایت کے اعتبار سے یہ ایک انوکھا واقعہ ہے کہ جب ایمرجنسی کا فائدہ وفاق کی بجائے صوبوں اور دیگر اکائیوں نے اٹھایا ہو. اس عمل سے عوام میں اور ریاستی مشینری میں کنفیوزن تو پیدا ہوا ہی لیکن سیاسی طور پر وفاق اور اکائیوں میں طاقت کی ایک زبردست کشمکش پیدا ہونے کے بھی کافی امکانات پیدا کردئیے ہیں. لوگ بحث کر رہے ہیں کہ پارلیمانی جمہوری روح تقاضہ کرتی ہے کہ وزیراعظم کے انتظامی اقدامات ہی اس کی آئینی ذمہ داریوں اور سیاسی اہمیت کو ظاہر کرتے ہیں لیکن اگر اس کے برعکس وزیراعظم آفس پہلے ہی آئینی و قانونی قدغنوں سے اپنی پوزیشن کمزور کر چکا ہو تو ایسے میں ایمرجنسی طاقت کا اکائیوں میں منتقل ہوجانا اداروں میں موجود پہلے سے ہی طاقت کی کشمکش کو مزید تقویت دے گی. پاکستان کے غیر مستحکم حالات اس ادارتی معاملے کو وفاق کی کمزوری جیسی آئینی مسلے میں دھکیلنے میں وقت نہیں لیں گے جو کہ ناگزیر طور پر اٹھارویں آئینی ترمیم کو بنیاد بنا کر وفاق اور اکائیوں میں موضوع بحث بنے گا. اس تسلسل میں فریقین میں غیر جمہوری رویوں کی حوصلہ افزائی ہوسکتی ہے جو کہ کسی طور پر بھی عوامی مفاد میں نہیں. لاک ڈاؤن نافذ کرنے میں جس طرح ایک ابہام پیدا کیا گیا تھا بدقسمتی سے وہ ابہام تاحال جاری ہے یہاں تک کہ نفاذ کے خاتمے پر بھی اتفاق رائے نہیں ہوپارہا.
ممکن ہے کہ یہ مفروضہ غلط ثابت ہو اور آئینی معاملات خوش اسلوبی سے چلتے رہیں. یہ بھی ممکن ہے کہ ایسی کسی بحث کو سرے سے رد کر کے حکومت اپنی منشا کے مطابق فیصلے لیتی رہے. ان تمام مفروضوں کو تبھی غلط ثابت کرنا ممکن ہوگا اگر حکومت سنجیدگی سے بلدیاتی نظام کو موثر انداز میں پھر سے زندہ کرے. بلدیاتی نظام کی صورت میں وفاق اور صوبوں میں طاقت کی کشکمکش کی شدت میں براہ راست کمی واقع تو ہوگی ہی ساتھ ہی ایک ایسا پائیدار اور منظم ادارہ بھی وجود میں آئے گا جو کرونا وائرس سے نمٹنے کے لئے براہ راست اور وسیع عوامی شمولیت سے حکومتی اقدامات کو انتظامیہ کے ساتھ مل کر موثر ثابت کرے گا. یہ قدم نہ صرف عوام میں حکومت کے لئے سیاسی فائدے کا باعث بنے گا بلکہ تعمیری اعتبار سے بھی گراس روٹ لیول کا ایک منظم ادارہ تشکیل دے گا.

پاکستان میں حالات کسی بھی نہج پر ہوں، بین الاقوامی طور پر کرونا وائرس یقیناً اپنے اثرات مرتب کرے گا. یہ طے ہے کہ انسان نے بے لگام ترقی کے زعم میں فطری قوانین مہں جو بھی مثبت یا منفی, رخنہ ڈالا ہے اس کی قیمت بہرحال ادا کرنا ہوگی. گزشتہ بیس برس میں یہ برڈ فلو, سارس وائرس, ایبولا وائرس, زیکا وائرس کے بعد کم از کم پانچویں ایسی بڑی بیماری وقوع پذیر ہوئی ہے جس کا دائرہ کار کئ ممالک تک پھیلا ہے. مستقبل میں بھی ایسی بیماریوں کے لئے تیار رہنا ہوگا اور تیاری وہی موثر ہوگی جو مستقل بنیاد پرادارتی شکل میں کی جائے گی.

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے