کالم

وہ صحافت اور یہ صحافت ! کچھ مزید

مئی 9, 2020 3 min

وہ صحافت اور یہ صحافت ! کچھ مزید

Reading Time: 3 minutes

کیتھرین کیٹ ایڈی کی مثال کو سامنے رکھتے ہوئے پروفیشنل صحافت پر بات کومزیدآگے بڑھاتے ہیں۔

وہ 1945 کو برطانیہ کے علاقے نارتھ امبر لینڈ میں پیدا ہوئی۔

ساٹھ کے عشرے میں نیو کاسل یونیورسٹی سے سکینڈے نیوین سٹڈیز پر جرنلزم کی ڈگری حاصل کی اور صحافت کے میدان میں آئی اسے ایک پروفیشنل اور حد درجہ دلیر صحافی کی حیثیت سے شہرت ملتی گئی کچھ عرصہ بعد وہ بی بی سی سے وابستہ ہوئیں۔

کیتھرین کیٹ ایڈی وارزون سمیت مشکل ترین ایونٹس کی کوریج کی ماھر سمجھی جاتی تھی۔

بارود کی بارش یا سنسناتی ہوئی گولیوں سے وہ خیر دھشت زدہ تو کیا ہوتی لیکن وھاں سے خالص پیشہ وارانہ انداز میں خبر نکال کر لے آتی۔

80 کے عشرے میں ایرانی سفارت خانے پر لندن میں حملہ ہوا تو کیتھرین ایک چھوٹی سی گاڑی کے نیچے چھپ کر برستی ہوئی گولیوں کے بیچوں بیچ لائیو کوریج کرنے لگی۔

ایک ساتھی نے دیکھا تو دور سے آواز دی کہ بھاگ جاؤ شدید فائرنگ ہورہی ہے کیتھرین نے مڑ کر ساتھی کی طرف دیکھا اور اپنا مائیک سنبھالتے ہوئے کہا “ یہی تو خبر کے حصول کا موقع ہے۔

یہ آپریشن سو گھنٹے تک مسلسل جاری رہا اور کیتھرین لمحہ بھر کو غافل نہیں رہی بلکہ مسلسل موجود رہ کر لائیو کوریج کرتی رھی۔(اس رپورٹنگ کو صحافتی حوالے سے بہت شہرت ملی اور اسے سال کی بہترین رپورٹنگ مانی گئی)

1986 میں امریکہ نے لیبیا پر بمباری کی تو ٹریپولی کی سڑکوں پر اپنے کیمرے اور مائیک سمیت بھاگتی اور بمباری کی لائیو کوریج کرتی اور امریکہ کا ظالمانہ چہرہ دُنیا کو دکھاتی رہی اس دوران کرنل قذافی کا ایک یادگار انٹرویو بھی کر ڈالا ،انھی دنوں ایک لیبیائی فوجی کمانڈر نے کسی بات پر مشتعل ہوکر کیتھرین کیٹ ایڈی پر فائرنگ کر دی جس سے ایک گولی اس کے گلے میں لگی لیکن خوش قسمتی سے زیادہ نقصان نہیں ہوا تاہم کیتھرین نے زندگی بھر اپنے اس ذاتی تکلیف کا ذکر تک نہیں کیا (جبکہ یہاں تو میرے پیٹ میں اب بھی گولی ہے نے ھماری ناک میں دم کر رکھا ہے )

1980 میں نارتھ آئر لینڈ کا مسئلہ کھڑا ہوا تو مسلسل وھاں موجود رہی اور متحارب گروھوں کا نقطہ نظر دُنیا کو سامنے لاتی رہی ۔

1989 میں چین کے تیان من سکوائر میں احتجاجی نوجوان نکل آئے تو بلا خوف و خطر اسی چوک میں مسلسل موجود رہی ، حتٰی کہ اس دلدوز منظر کی کوریج بھی کی جب ٹینک احتجاج کرنے والوں کو کچلنے لگے ۔

1994میں روانڈا کے انتہائی خطرناک جینو سائیڈ کے بیچوں بیچ مسلسل موجود رہ کر بلا خوف دیانت داری کے ساتھ اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داری نبھاتی رہیں ۔

اس جینو سائیڈ کے دوران دس لاکھ سے زائد افراد مارے گئے تھے اور انسانی زندگی بے معنی اور بے وقعت ہو کر رہ گئی تھی لیکن کیتھرین کیٹ ایڈی ایک لمحہ کو بھی میدان چھوڑ کر نہیں بھاگی بلکہ دیانتداری اور دلیری کے ساتھ اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داری نبھاتی رھی ۔

2000 میں افریقی ملک سیرالیون میں مسلسل میدان جنگ میں موجود رہ کر رپورٹنگ کرتی اور مہارت کے ساتھ اپنی ڈیوٹی سر انجام دیتی رہی ۔

وہ 1989 سے اپنی ریٹائرمنٹ یعنی 2003 تک بی بی سی سے بحیثیت چیف نیوز کرسپانڈنٹ وابستہ رھی لیکن سٹوڈیو میں بیٹھ کر محض وقت گزاری کی بجائے وہ ہمیشہ خطرناک فیلڈ کا انتخاب کر کے کام کرتی رہیں ۔
اپنی بہترین کارکردگی کی بدولت اسے دُنیا کی تین بہترین صحافیوں میں شامل کیا گیا تھا۔

اب ذرا کیتھرین کیٹ ایڈی کی حد درجہ محنت طلب اور پروفیشنل صحافت پر نظر ڈالیں،اور پھر اپنی سٹوڈیونشین غل غپاڑہ صحافت کو بھی ایک نظر دیکھ لیں۔

لیکن ٹھہریں!

ذرا اس طرف بھی دھیان دیں کہ کیتھرین کیٹ ایڈی ایک طرف مسلسل خطرناک فیلڈ میں مصروف رہ کر انتہائی مشکل اور خطرناک کوریج کرتی رہی جبکہ دوسری طرف اپنے پیشے (صحافت ) کے حوالے سے درجن بھر کتابیں بھی لکھیں ۔

جن میں سے بعض کتابوں مثلاً کائنڈنس آف سٹرینجرز ،نو باڈیز چائلڈ اور فائٹنگ آن ھوم فرنٹ کو عالمی شہرت ملی۔

جبکہ ہمارے ھاں دیکھیں تو علم محنت اور پروفیشنل ازم سے بھلا اس رقعہ نویس اور پلاٹ زدہ صحافت کا تعلق کیا ؟

کیونکہ یہاں تو گالم گلوچ ، بہتان طرازی اور پبلک ریلشننگ ہی معیار ٹھہرے۔
جس نے اس عظیم پیغمبرانہ پیشے کا رُخ اس کلچر کی جانب موڑ دیا جس کا ذکر بھی کسی شریف آدمی کو کرتے ہوئے سو بار سوچنا پڑتا ہے۔

اب اگر آپ واقعی صحافت میں دلچسپی رکھتے ہیں اور اسے سنجیدہ اور شفاف دیکھنے کے متمنی بھی ہیں تو ذرا سکرینوں بلکہ اخبارات کے ادارتی صفحات سے چمٹے ہوئے ان نابغوں کا ڈیٹا نکال کر دیکھیں جس میں سے چند ایک کو چھوڑ کر باقیوں کا تجربہ ،طرز تحریر ،فیلڈ رپورٹنگ اور تصنیف و تالیف تو دور کی بات ھے تعلیم تک ھی مشکوک ھے۔

جب صورتحال یہی ہو تو پھر اسے آپ بھلا کوئی بھی نام دے دیں لیکن کم از کم صحافت کہہ کر اس عظیم پیشے اور شاندار ورثے کا مذاق اڑانے سے تو گریز کریں جس کی بنیادوں میں محمد علی جوہر اور ابوالکلام آزاد سے فیض احمد فیض اور ضمیر نیازی جیسے لوگوں کا خون پسینہ شامل ھے۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے