مسلمان علم دشمن یاعلم دوست؟
Reading Time: 9 minutesآج ہمیں دو طبقوں کے لوگ طعنے دیتے ہیں، ایک وہ جو اسلامی تاریخ، تہذیب وتمدن سے غافل ہیں۔اس طبقے کے لوگوں کو عرف عام میں دیسی لبرلز،ملحد یادیسی سیکولرز کہتے ہیں۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ مسلمان سلاطین علم دشمن تھے۔ انہوں نے فلسفیوں اور ساٸنسدانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ ڈالے اور مسلمانوں کے دور حکومت میں مذہبی آزادی پر پابندی تھی۔ کوٸی کھل کر اظہار خیال نہیں کرسکتا تھا۔
دوسرا طبقہ جو ہمیں طعنہ دیتا ہے، اس کے لوگ کافی سمجھدار اور باشعور ہیں لیکن متعصب ہیں اور اس طبقے کے لوگوں کو مستشرقین کہتے ہیں۔ یہ لوگ یہاں تک تو تسلیم کرتے ہیں کہ مسلمانوں نے یونانی سے عربی میں علوم وفنون کا ترجمہ کیا جن سے وہ کتابیں محفوظ رہ گٸیں لیکن ان کے مطالب نہیں سمجھا دٸیے۔ ہم آگے دونوں کے مدعا کا جاٸزہ لیتے ہیں کہ اس میں جھوٹ اور سچ کی کمیت کیا ہے۔
مستشرقین اس بات کو نظرانداز کرتے ہیں کہ مسلمان فقط یونان کے مترجمین نہیں ہیں بلکہ شارحین بھی ہیں۔ ارسطو اور افلاطون دانستہ مضمون کو اتنا پیچیدہ لکھتے کہ خود یونانیوں نے ان کی عبارتوں کو سمجھنے میں غلطیاں کی۔ ارسطو اپنی تحریروں کی تھوڑی وضاحت کی تو افلاطون نے اس کو ایک خط لکھا کہ تم علم کو ذلیل اور پامال کرتے ہو۔
ارسطو نے جواب میں لکھا کہ میں نے پھر بھی ایسی پیچیدگیاں رکھی ہیں کہ اکثر لوگ اصل کی تہہ تک نہیں پہنچ سکتے۔ابونصرفارابی نے "الجمع بین الرائین” کے نام سے لکھی جو یورپ میں شائع ہوئی۔ اس میں انہوں نے یونانیوں کی غلطیوں کو درست کیا جو غلطیاں انہوں نے ارسطو اور افلاطون کے عبارتوں کو نہ سمجھنے کے باعث کیں۔
Plinio prioreschi نے لکھا ہے کہ مغربی رومی سلطنت گرنے کے بعد، بازنطینی سلطنت کے کمزور ہونے اور اسلامی قوت کے بڑھنے کے باعث علم نے ایک اور چکر کاٹ لیا۔علم یونان سے بہتا ہوا ہوا اسلام کے زرخیز زمین سے گزرتے ہوئے یورپ پہنچا۔ اسلامی عہد میں یہ علم بہت زیادہ مالدار تھا۔مصنف کے الفاظ یہ ہے
The resulting European culture remains greatly indebted to Islam. So much so infact that we must consider ourselves the heirs of not simply of the Greeco Roman tradition but of the Greeco Roman Arabic tradition.
مغرب کی موجودہ ثقافت پر اسلام کے بہت زیادہ احسانات ہیں،اتنے زیادہ کہ درحقیقت ہم فقط یونان کے جانشین نہیں ہیں بلکہ پوری طرح اسلامی تہذیب کے جانشین بھی ہیں۔
مسلمانوں نے روز اول سے وسیع النظر تھے اور ہر قسم کے تعصب سے پاک تھے۔انہوں نے کبھی غیرقوموں اور غیرزبانوں سے کسی قسم کے تعصب کا مظاہرہ نہیں کیا۔یہاں تک کہ خود سیدنا محمدﷺ نے بھی غیرقوموں کے چند اصول اور قوانین پسند فرماٸیں ہیں۔ صرف پسند نہیں فرمائیں بلکہ اس پر عمل بھی کیا۔شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے ”حجة اللہ البالغة“میں لکھا ہے ”وکان قباد وابنہ نوشیروان وضعا علیھم الخراج والعشر فجاءالشرع بنحو من ذالک” یعنی قباد اور اس کے بیٹے نوشیروان نے لوگوں پر خراج لگایا تھا تو شریعت اسلامی نے بھی اس کے قریب قریب حکم دیا۔دوسری قوموں سے اکثر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خط وکتابت رہتی تھی،اسی واسطے زید بن ثابتؓ سے فرمایا عبرانی سیکھ لو۔زید بن ثابتؓ نے عبرانی اور پھر سریانی سیکھ لی۔ سیدنا معاویةؓ نے ایک عیسائ طبیب ابن آثال کو ضلع حمص کی کلکٹری کی خدمت تھی دی۔ابن آثال نے سیدنا معاویة کیلئے طب کے بعض کتابوں کا ترجمہ بھی کیا۔
"طبقات الاطباء” میں علامہ ابن ابی اصبیغہ نے لکھا ہے”ابن أثال هو طبيب عربي نصراني شغل منصب الطبيب الشخصي لمعاوية بن أبي سفيان”ابن آثال ایک عیسائ طبیب تھا جس کو امیرمعاویةؓ نے عہدہ دیا تھا۔
امیرمعاویةؓ کھ پوتے خالد نے عیسائیوں کے پاس جاکر فن طب اور کیمیا میں کمال پیدا کردیا۔ ایک یونانی رہبان مریانس سے انہوں نے علم کیمیا سیکھا اور پھر خود فن کیمیا میں میں تین کتابیں لکھی۔John Eberly نے خالد کی فقط تین کتابوں کا ذکر کیا ہیں جن کے نام یہ ہیں۔۔۔
The book of Amulets,The Great and small books of scroll and The Paradise of wisdom.
EJ Holmyard کے الفاظ یہ ہیں۔۔۔
He ordered some greek philosphers to be summuned from Egypt and instructed them to translate alchamical books from Greek and Coptic to Arabic.
خالد نے مصر سے چند ماہر فلاسفہ کو بلا کر حکم جاری کیا کہ الکیمیاء کی کتابوں کو یونانی اور قبطی زبان سے عربی زبان میں منتقل کریں۔
خالد نے اسلامی تاریخ میں پہلی مرتبہ حکماء کو جمع کرکے قبطی اور یونانی کتابوں کے ترجمے پر مامور کیا۔اسی طرح لوگوں کو اس کام کی طرف توجہ ہوئ جس کے نتیجے میں مروان بن الحکم کے دربار کے مشہور یہودی طبیب ماسرجیس نے بشپ اہرن کی قرابادین کا سریانی سے عربی میں ترجمہ کیا جس کو شاخی کتب خانہ میں داخل کیا گیا۔عمربن عبدالعزیزؓ جیسے خلیفہ کو بھی یونانی علوم کی طرف رغبت تھی۔جب وہ مصر کے گورنر تھے تو اس وقت حکیم ابن ابجز اسکندریہ کی یونانی تعلیم کا پروفیسر تھا۔ صاحب طبقات الاطباء نے لکھا ہے”طبيب مسلم بارع وتابعي جليل وكان في أول أمره
في الإسكندرية لأنه كان المتولي في
مقيم
التدريس بها من بعد الإسكندرانيين وذلك عندما
كانت البلاد في ذلك الوقت لملوك النصارى. ثم إنالمسلمين لما فتحوا مصر وملكوا الإسكندرية أسلم
ابن أبجر على يد عمر بن عبد العزيز وكان حينئذ
ًا قبل أن تصل إليه الخلافة وصحبه فلما
أمير
أفضت الخلافة إلى عمر وذلك في صفر سنة تسع
وتسعين للهجرة نقل التدريس إلى أنطاكية وحران
وتفرق في البلاد وكان عمر بن عبد العزيز يستطب
ابن أبجر ويعتمد عليه في صناعة الطب وقد انتقل
إلى الكوفة ومن ذريته الأطباء آل الأبجر في
الكوفة” جب عمر بن عبدالعزیز سلیمان ابن عبدالملک کے عہد میں مصر کے گورنر تھے تو اس وقت اسکندریہ میں یونانی تعلیم کا افسر تھا پھر جب عمربن عبدالعزیز خلیفہ بنے تو ابن ابجر کو طبی شعبے کا افسر مقرر کیا کیونکہ یہ ایک ماہر طبیب بھی تھا۔ابن ابجر کے آنے کا فائدہ یہ ہوا کہ یونانی تعلیم اسکندریہ سے انطاکیہ میں منتقل ہوگئ۔
بنوامیہ کا سلطان ہشام بن عبدالملک کے دور میں علوم وفنون کو بہت ترقی ہوئ۔ہشام کا میرمنشی سالم نے ارسطو کے رسالوں کا عربی میں ترجمہ کیا جو انہوں نے سکندر کے نام لکھے تھے۔
منصور کا عہد ایک سنہرا عہد تھا۔ منصور خود بھی بڑا عالم تھا اور ہر کام میں عجم کی تقلید کرتا تھا۔ منصور نے عبداللہ بن مقفع کو دربار کا میرمنشی مقرر کردیا۔ ابن مقفع مجوسی سے بڑا صاحب قلم آج تک نہیں گذرا۔انکی کتاب "یتیمیہ” کو ملحدوں نے العیاذباللہ قرآن کے مقابلے میں پیش کیا تھا۔وہ بعد میں منصور کے ہاتھ پر مسلمان ہوا۔ابن مقفع نے یونانی کتابوں کا عربی میں ترجمہ کیا جیساکہ قاطیغوریاس،یارمیناس،انالوطیقاوغیرہم۔فارسی کی خدائ نامہ،آئین نامہ،یزدک نامہ،الادب الکبیر اور الادب الصغیر وغیرہم کا ترجمہ کیا۔منصور کے عہد میں جارج بن جبریل جندی سابود میں افسر الاطباء کے منصب پر ممتاز تھا حالانکہ اس نے اسلام قبول نہیں کیا تھا۔جارج نے طب کی کتابوں کا عربی میں ترجمہ کیا۔اس نے خود بھی سریانی میں اپنے تجربات پر مشتمل کتاب لکھی جس کو بعد میں حنین بن اسحق نے عربی میں ترجمہ کیا۔ایک اور مشہور طبیب بطریق نے جالینوس اور بقراط کی کتابوں کا ترجمہ کیا اور یہ سب کچھ اسلامی عہد کے نیچے ہورہا تھا۔ ان کے سارے اخراجات اسلامی حکومت پوری کرتی تھی جس پر ہم آگے بحث کریں گے۔منصور نے مزید کتابوں کیلئے قیصر روم کو خط لکھا جس کے نتیجے میں قیصر نے کئ کتابیں منصور کے پاس روانہ کی۔مسلمانوں کی وسعت نظری کا اس سے اندازہ لگائے کہ منصور نے حکم جاری کیا کہ تمام مذاہب کی کتابوں کا ترجمہ کی جائیں۔ایران میں مانی مذہب کا چرچا تھا۔مانی نے نبوت کا دعوی کیا تھا اور کہتے تھے کہ مجھ پر وحی نازل ہوتی ہے۔بادشاہ ایران نے اس کو قتل کردیا تھا اور اسکے پیروکاروں کو بھی زندہ نہیں چھوڑا۔یہ لوگ مایوسی کے حالت میں ادھر ادھر پھر رہے تھے لیکن اسلامی عہد سلطنت نے تمام مذاہب کو آزادی دی۔یہاں تک کہ عبداللہ بن مقفع نے مجوسیوں،مانی اور دیگر مذاہب کے بانیان کی کتابوں کا ترجمہ کیا۔ابن ابی العرجاء،حماد عجرو،یحی بن زیاد اور مطیع بن ایاس جیسے لوگوں نے مانی کی تائید میں بھی کتابیں لکھی لیکن منصور نے حریت فکر کا لحاظ رکھتے ہوئے انہیں کچھ نہیں کہا۔
اس کے بعد ہارون الرشید کے دور میں یونانی،فارسی،ہندی اور سریانی کتابوں کا بڑا ذخیرہ جمع ہوچکا تھا۔ہارون نے بیت الحکمت کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا۔ اس ادارے میں ہر مذہب اور ہر قسم کے فن کے ماہر لوگوں کو ترجمہ کرنے کے کام پر مامور کیا۔ یوحنا کو خزانة الحکمت کا افسر مقرر کیا۔ مسلمانوں کی وسعت نظری دیکھیے کہ خالص میرٹ کی بنیاد پر تمام مذاہب کے افراد بیت الحکمت میں کام کررہے تھے۔ انسائکلوپیڈیا آف برٹانیکا کے الفاظ یہ ہیں
(Bayt al-Ḥikmah) to which the translators, most often Christians, were attached.
یہاں تک کہ بیت الحکمت میں زیادہ تر مترجمین عیسائ تھے۔اب یہ مذہب کی آزادی نہیں تو اور کیا ہے؟
بیت الحکمت میں 65 مترجمین تھے جو یونانی، سریانی، فارسی، سنسکرت اور سامی زبان کی کتابوں کو عربی میں ترجمہ کرنے پر مامور تھے۔ 47مترجمین یونانی سے،17فارسی سے،2سنسکرت سے اور 1 سامی زبان سے ترجمہ کرنے پر مامور تھے۔ ابن شاکر ہر مہینے 500 سونے کے دینار مترجمین پر خرچ کرتا تھا۔ ان مترجمین میں ثابت ابن قرة اور حنین بن اسحق بھی شامل تھے۔ ثابت صابی المذہب جبکہ حنین عیسائ تھا۔ حنین نے خزنت الحکمت کے افسر یوحنا بن ماسویہ سے طب سیکھنے کی کوشش کی لیکن چند روز بعد استاد نے کہا جاوُ تم کو علم نہیں آسکتا،تم صرافی کی دکان کھولو کیونکہ حنین ایک صراف کا بچہ تھا۔حنین روتا ہوا اٹھا اور پکا ارادہ کیا کہ یونانی زبان میں وہ کمال پیدا کروں گا کہ پورے ملک میں کوئ میرا ہمسر نہ ہو۔چنانچہ حنین نے اسکندریہ جاکر اسلامی درسگاہ میں یونانی علم ادب وفلسفہ کی تعلیم حاصل کی۔اس کے بعد بصرہ میں سیبویہ کے استاد خلیل نحوی سے عربی پڑھنی شروع کی۔ حنین عالم شباب میں اتنا مشہور ہوا کہ وہ جو کتاب ترجمہ کرتے مامون الرشید اس کو بطور انعام کتاب کے برابر تول کر سونا دیتا تھا۔یہی وجہ تھی کہ حنین انتہائ گندہ کاعذ پر لکھتا اور خط بھی انتہائ جلی ہوتی اور اسی طرح کتاب کی وزن کو بڑھانے کیلئے ہر صفحہ میں چند سطور لکھتے۔ حنین نے جالینوس کی کتاب "البرہان”کو ڈھونڈنے کیلئے ایک ایک شہر کا دورہ کیا۔ اڑتھالیس سال کی عمر میں اس نے ایک سو اکیس کتابوں اور رسالوں کا ترجمہ کیا تھا۔ حنین نے 100 رسالوں کو سریانی اور 39 کو عربی میں ترجمہ کیں۔ اس نے ادویات پر خود 29 کتابیں لکھیں اور دس رسالے opthamology پر لکھ چکے تھے۔ ان رسالوں کا بعد میں یونانی میں ترجمہ ہوا اور مشرق ومغرب کے جامعات میں پڑھائے گئے۔
ارسطو کے اخلاقیات پر کتابوں کو ثابت نے یونان سے عربی میں ترجمہ کی۔ ثابت نے انکے علاوہ سائنس،ریاضی،فلکیات اور جیومیٹری پر بھی کافی کام کیا۔
بیت الحکمت میں ایکastronomical Observatory بھی تھا جہاں پر فلکیات،ریاضی،فزکس،جیوگرافی اور فلسفے پر تحقیقات ہوتی تھی۔ بیت الحکمت میں جو قیمتی سرمایہ تھا دوسری قوموں نے بھی انکو اپنی زبانوں میں ترجمہ کیں۔ مامون کے دور کے الخوارزمی کے”حزب الجبر والمقابلة” The calculation of integration and equation کو لاطینی میں Gerard of cremona نے ترجمہ کی جو 1857 کو روم میں De Numero Indico کے نام سے شائع ہوئی۔
الرازی کی کتاب المنصوری کی پندرہویں صدی میں لاطینی میں ترجمہ ہوئ۔ عبدالحسین عبدالرحمن قرون وسطی کا ماہر فلکیات دان تھا جس نے پہلی مرتبہ ستاروں کے رنگ میں تبدیلی کا مشاہدہ کیا۔مامون کے دور میں یعقوب الکندی کی تصنیفات کو ارسطو کے ہم پلہ خیال کیا جاتا تھا۔کندی یونانی،فارسی اور سنسکرت میں بڑا ماہر تھا۔مامون نے اس کو خاص طور پر ارسطو کی کتابوں کے ترجمہ پر مامور کیا کیونکہ اس سے بڑھ کر کوئ ارسطو کو نہیں سمجھ سکتا تھا۔مامون نے اپنے عہد میں اعلان کیا کہ تمام ملک میں بحث ومناظرے کے مجالس قائم کئے جائیں اور ہر فرد کو اپنے مذہب کا اثبات اور دوسرے مذہب پر نکتہ چینی کا حق دی جائے۔اسکا فائدہ یہ ہوا کہ مسلمان علماء نے دوسری زبانوں کو بھی سیکھی تاکہ ہر مذہب والوں کے عقائد معلوم کیے جائیں۔مامون کے دربار میں جس قدر وزرآء تھے ان میں زیادہ تر مجوسی النسل تھے۔
مامون کے بعد معتصم اور معتصم کے بعد واثق باللہ آیا۔ واثق تقلید کا سخت مخالف تھا اور آزادانہ طور پر اظہار خیال کا قائل تھا۔واثق بڑے بڑے فلاسفرز سے بحثیں کرتا تھا۔حنین بن اسحق سے واثق نے جو علمی مسائل دریافت کیے تھے اس کو حنین نے "المسائل الطبیعة”نامی مستقل کتاب میں لکھا۔
مسلمانوں نے تکالیف اور مصائب کا مقابلہ کرکے علوم کو حاصل کیا اور پھر لوگوں کو وہ علوم سکھائے بھی۔
اس کا اندازہ اس سے لگائے کہ بوعلی سینا کا معاصر ابوریحان ریاضی کا بڑا عالم تھا۔وہ خود لکھتے ہیں کہ سنسکرت سیکھنے میں مجھے نہایت مصیبتیں پیش آئ کیونکہ ہندووں کے تعصب کی کوئ انتہاء نہیں ہے۔وہ مسلمانوں کو ملچھ کہتے ہیں۔مسلمانوں سے جو چیز چھو جائے وہ انکے نزدیک ناپاک ہوجاتی ہے۔اپنے بچوں کو ہمارے نام سے ڈراتے ہیں اور ہمیں شیطان کہتے ہیں۔ایک اور مسلہ یہ تھی کہ ہندووں کتاب دینے میں انتہائ بخل کرتے تھے حالانکہ وہ کتب خریدنے پر بڑا رقم خرچ کرتا تھا۔ آخر ان مصائب کے بعد سنسکرت زبان پر عبور حاصل کی اور کئ کتابوں کے ترجمے بھی کئے۔
یہ اسلامی عہد کا انتہائ اختصار کیساتھ خاکہ پیش کیا ہے۔ یہ میں نے اسلامی عہد کے فقط دو تین واقعات ذکر کئے لیکن اب نتیجہ آپ پر انحصار کرتا ہے۔
اب آپ بتائیں کہ کیا واقعی مسلمان سلاطین متعصب اور علم دشمن تھے؟
Refrences/Sources:
1.Alchamy by EJ Holmyard. page 64.
2.Ahistory of Medicine Byzantine and Islamic Medicine by Plinio pioreschi.
3.Maqalat-e-Shibli Vol3
4.Islam and Orientalists Vol4
5.Medievel Islamic Civilization. An encyclopedia by Josep W.meri Vol1 page 346.
6.A new introduction to Islam page 129.
7.State and Government in Medievel Islam Routledge page 50,5.
8.The Abbasid Revolution Iranian Studies.
9.Greek thought,Arabic culture. The Greeco-Arabic translation movement in Baghdad and Early Abbasid society page 53 to 60 by Prof Dimitri Gutas.
10.The House of Wisdom.How Arabic science saved ancient knowledge and gave us the Renaissance. Page 53.
11.The sciences in Islamic societies. The new cambridge history of Islam. Page 569.
12.Medievel Islamic medicine page 20 to 29.
13.The house of wisdom. How Arabic transformed westren civilization.
14. Medievel Islamic civilization Vol1 page 304.
15.A cursory review of Muslims observatories 2002.
16.All the worlds knowledge by Moore,Wendy Feb 28,2011.
17. Islamic science and making of European Renaissance.George Saliba
18.The biographical encyclopedia of Astronomers. Hocley,Thomas 2007.
19.Encyclopedia of Space Astronomy page 78.
20.The classical heritage in Islam.
21.Encyclopedia Brattinica.
21۔الفہرست لابن ندیم
22۔طبقات الاطبإ لابن ابی اصبیغہ
23۔مروج الذہب جلد چہارم