جوڈیشل ایکٹوازم اور کورونا
Reading Time: 2 minutesراجہ اویس
چارلس لوئس نے جمہوری ریاست کے تین ستونوں میں طاقت کی مساوی تقسیم کا خیال پیش کیا۔ مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ۔ اس تقسیم کو برقرار رکھنے کے لئے انہوں نے چیک اور بیلنس کے نظام کا پرچار بھی کیا۔ ان کے مطابق اختیارات کی علیحدگی ہموار ، بلاتعطل اور موثر جمہوریت کے لئے اہم ہے۔
پاکستان کی آئین کے مطابق ، فیڈریشن کے ایگزیکٹو اتھارٹی کا استعمال صدر کے نام پر وفاقی حکومت کرے گی ، جس میں وزیراعظم اور وفاقی وزرا شامل ہوں گے جو وزیراعظم کے ذریعے کام کریں گے ، جو چیف ایگزیکٹو ہوگا۔
عدلیہ کا فرض ہے کہ وہ انصاف کو یقینی بنائے اور ریاست کے شہریوں کے بنیادی حقوق کو برقرار رکھے۔ عدلیہ کو عوامی قوانین پر نظرثانی کرنے کا اختیار حاصل ہے تاکہ وہ ملک کے آئین کی خلاف ورزی نہ کریں۔
2007 کی وکلا کی تحریک کے بعد سے، سابق چیف جسٹس نے مختلف طریقوں کو اپنایا ہے جسے میڈیا میں جوڈیشل ایکٹوازم کے نام سے جانا جاتا ہے۔
2009 میں، اس وقت کے چیف جسٹس افتخار چوہدری کی سربراہی میں اعلی عدلیہ نے بنیادی حقوق کے نفاذ کے لئے عوامی مفادات کی قانونی چارہ جوئی کا آغاز کیا۔
بعد ازاں سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے دور میں جوڈیشل ایکوازم کو مزید تقویت ملی۔ تاہم ، سابق چیف جسٹس – تصدق حسین جیلانی اور انور ظہیر جمالی نے خود بخود طاقت کا استعمال نہ کیا۔
سابق چیف جسٹس ناصر الملک نے اپنے دور میں کوئی ازخود نوٹس نہیں لیا۔ اسی طرح سابق چیف جسٹس کھوسہ کے دور میں بھی سپریم کورٹ کا انسانی حقوق کا سیل سرگرم نہیں تھا۔
اب ایک سال گزر جانے کے بعد ، چیف جسٹس گلزار نے ملک میں کورون وائرس کے بحران پر اپنا پہلا ازخود نوٹس لیا ہے۔
از خود نوٹس کی سماعت کے دوران عدالت عالیہ نے حکومتی اقدامات کو غیر تسلی بخش قرار دیا اور ڈاکٹر ظفر مرزا کی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کیا۔ ساتھ ہی عدالت نے بڑے شاپنگ مالز اور مارکیٹیں کھولنے کا حکم بھی دیا ہے، اس فیصلے کے اثرات دو سے تین ہفتے میں ہمارے سامنے آ جائیں گے۔
اس وقت پاکستان میں مختلف عدالتوں میں تقریباً 20 لاکھ سے زائد مقدمات سماعت کے منتظر ہیں، تقریباً چالیس ہزار مقدمات سپریم کورٹ آف پاکستان میں زیر التواء ہیں۔
ایسی مثالیں بھی موجود ہیں جہاں پھانسی کے بعد ملزم کی رہائی کا حکم دیا گیا، زمینوں کے مقدمات کا فیصلہ کئی دہائیوں تک لٹکا رہتا ہے لیکن کبھی عدالت عالیہ نے کسی ہائی کورٹ اور ڈسٹرکٹ کورٹ کی کارکردگی پر عدم اعتماد کا اظہار نہیں کیا۔
نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں کورونا وائرس نے ہلچل مچا رکھی ہے۔
دنیا میں کورونا وائرس سے ساڑھے تین لاکھ اموات ہو چکی ہیں لیکن اب تک کسی ملک کی عدالت نے حکومتی اقدامات کی جانچ پڑتال کے لیے ازحود نوٹس نہیں لیا۔
پاکستان میں اختیارات کی تقسیم کا ازسرنو جائزہ لینے کی ضرورت ہے، یہاں کبھی عدالت انتظامیہ کے معاملات میں دخل انداز ہوتی ہے تو کبھی انتظامیہ عدالت کو اپنے اشاروں پر نچاتی ہے۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ اختیارات کی تقسیم کا ازسرنو جائزہ لیا جائے۔