کالم

ٹھیکیدار کی بیٹی اور سوشل میڈیائی ٹھیکیدار

جون 1, 2020 3 min

ٹھیکیدار کی بیٹی اور سوشل میڈیائی ٹھیکیدار

Reading Time: 3 minutes

سوشل میڈیا کے ٹھیکیداروں کے ہاتھوں اس کراہت آنگیز واردات میں ایک دوسرے شعبے کے ٹھیکیدار کو آڑے ہاتھوں لینے کی سو دیگر وجوہات ہو سکتیں ہیں لیکن وہ وجہیں ہر گز نہیں ہیں جن کی آڑ میں بیشتر خود کو ارتغرل کے ہم پلہ بنانے پر تلے ہیں۔ اس دلیل کو کیسے ثابت کیا جاسکتا ہے؟ فقط اس واقعے میں ملوث کرداروں کے صنف اور حسب و نسب کو بدل کر دیکھیں، واقعے کی نزاکت میں خودبخود کمی آ جائے گی۔
فرض کرتے ہیں فرش پر پڑے خون آلود پیروں کے نشان کسی ’’عامی‘‘ کے بدمعاملگی کا نتجہ ہوتے تو کیا پھر بھی یہ مناظر سوشل میڈیا پر اتنا ہی دہشت ناک نظر آتے؟ نہیں۔۔ کیونکہ اگر کوئی معمولی قسم کا محب کوئی بنیاد بنا کر محبوب یا محبوب کے شریک کو دبوچتا، تو اس قسم کی حرکت کو ایک ”عامیانہ” حرکت کہہ کر نظر انداز کر دیا جاتا۔
دوسرا فرض کیجئے اگر ہمارے پدرشاہی نظام میں وقوع پزیر ہونے والے اس سرگزشت میں خاتون حملہ آور کی جگہ کوئی مرد اپنے شریک سے اس قسم کی دست اندازی کرتا پایا جاتا، کیا پھر بھی سوشل میڈیا پر حالیہ قسم کی قیامت پرپا ہو پاتی؟ زیادہ سے زیادہ کیا ہوتا، کچھ لوگ حملہ آور کو بیوی سنبھال نا پانے پر مردانہ کمزوری کا طعنہ دیتے جبکہ دیگر شریک کو "سنبھال” نا پاسکنے پرغیرت کو لعن طعن کرکے چلتے بنتے ۔
مانیں نا مانیں جن عوامل کی وجہ سے یہ واقعے حد سے زیادہ رنگین اور سنگین بنایا گیا وہ مرکزی کرداروں کا صنف نازک ہونے کے ساتھ ایک کا اشرافیہ اور دوسرے کا فنکار ہونا تھا۔ جس نے ہم کی بورڈ مابرین کو ایک ایسا موضوع تھالی میں سجا کر پیش کیا جس پر نا صرف ہم اپنی برسوں کی پنیتی محرومیوں کی بھڑاس نکال سکتے تھے بلکہ خود کو خدائی فوجدار سمجھ کر دوسروں کے شرافت کے لبادے میں بھی جھانک سکتے تھے۔

ورنہ اگر طبقاتی نظام کو چیلنج کرنا مقصود ہوتا پچھلے کئی سالوں ہم لوٹ کھسوٹ کے ان گرم بازاروں پر ٹریںڈ چلا رہے ہوتے، جن میں ٹھیکیدار صاحب کا براہ راست نام بھی آتا ہے۔ بلکہ شاید ہماری آںکھوں سے اوکاڑہ فارم اور کونے کھودروں سے ملنے والی لاشوں کے مقامات بھی اوجھل نہ ہوتے۔ اور اگر اب تک ایسے ٹرینڈز چل چکے ہوتے تو ان میں انتظامیہ کی بے بسی، قانون کی لاچارگی اور ادھیڑ عمر میڈیا کے منہ میں چوسنی لینے کی مجبوری کے پیچھے کے کارفرما عوامل کا بھی کچھ نا کچھ پتہ چل چکا ہوتا۔

خیر اگر اب بھی بہت سے بضد ہیں کہ ان کی گریہ و زاری کی وجہ عورت پر ہونے والی یہ دراندازی ہے، تو ان کی معلومات میں اضافہ کرنا چاہوں گا کہ آج سے دس روز قبل وزیرستان میں اس زیادہ سفاک واقعہ درپیش آیا تھا۔ ایک ویڈیو پر غیرت کھا کر چچا زاد بھائی نے 16 اور 18 سالہ لڑکیوں کو قتل کیا۔ اس واقعے پر کتنے سوشل میڈیا کے جنگجوں کو ہتھیار آٹھانے کی توفیق ہوئی؟ کیا وکلا کی فوج نے متاثرین کے گھر پر دستک دے کر ان کو مفت قانونی معاونت کی پیشکشیں کیں؟ یہاں پر تو خبر نشر کرتے وقت ّ’’بااثر‘‘ یا ’’اہم شخصیت‘‘ کی لیپا پوتی کرنے کی ضرورت بھی نہیں تھی تو کیا وجہ ہے کہ میڈیا کی چنگھاڑ میں وہ طاقت نظر نہیں آئی؟

بات سادہ سی ہے کیونکہ وہاں کے علاقائی رسم و رواج کو مد نظر رکھتے ہوئے اس واقعے کی بھی رنگینیت و سنگینیت میں وہ شدت نہیں تھی جو ہمارے ضمیر ملامت ہوئے کرتے ہوئے ہمیں کی بورڈز پر انگلیاں تھرکانے پر مجبور کرتے۔
ٹھیکیدار کی بیٹی کے اس کیس میں یہ حوصلہ شکنی کرنا ہرگز مقصود نہیں کہ ظلم کے خلاف آواز نہیں آٹھانی چاہیے۔ آواز ضرور آٹھائیں لیکن تھوڑے معاملہ فہم بن کر۔ اس معاملے میں کوئی کنارہ کیسے چنا جا سکتا ہے جہاں ایک فریق اپنی حرکات کے دفاع میں گیارہ سال کا بچہ اور دوسرا اعتکاف کو لے کر کھڑا ہوا ہو۔ ایک لاکھ اسی ہزار کے کرائے کے گھر والوں کو لاچار تصور کیا جارہا ہو جبکہ مرد گارڈز کے ذریعے دھونس جمانے والوں کو اخلاقی برتری حاصل ہورہی ہے۔ مان لیں کہ ایسی گتھیاں سوشل میڈیا پر نہیں سلجھائی جا سکتیں جن کے اندر پردہ در پردہ حقیقت مخفی ہیں۔ یہ حق قانونی نظام کے پاس ہے کہ وہ کھوج لگائیں، ہم تو اس کھوج کے دوران نظر آںے والے سقموں کی نشاندہی ہی کر سکتے ہیں۔

خیر اس واقعے میں دھاوا بولنے والوں کے وارنٹ گرفتاری جاری ہو چکے ہیں، زد نشانہ عورت ذات بنا کر جو دو متحارب گروپ ایک دوسرے پر مسلسل گولہ بارود برسا رہے تھے وہ بھی تھک ہار کر لوٹ چکے ہیں۔

متوقع خوشخبری یہ ہی کہ انشااللہ یہ سب ’’غازی‘‘ بن کر لوٹیں گے۔ معاملہ اس خوش اسلوبی سے نمٹے گا کہ ایک فریق یہ بھول جائے گا اس کے قانونی حق کی خلاف ورزی ہوئی ہے جبکہ دوسرا فریق اخلاقی آڑ کی جانے والے اس داخل اندازی کے دفاع سے تائب ہو جائے گا۔ جس کے بعد ’’مرد گردی‘‘ کی شکار ہونے والی دونوں خواتین کو چاہیے کہ وہ اس معاملے میں عثمان بزدار سی معصومیت رکھنے والا عثمان کے طرز عمل پر بھی غور کر کے کوئی منطقی نتیجہ اخذ کریں۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے