کالم

تیل کا بحران کیسے آیا

جون 10, 2020 3 min

تیل کا بحران کیسے آیا

Reading Time: 3 minutes

تقریبا دو ماہ قبل حکومت نے بغیر کسی تیاری کے لاک ڈاؤن کا اعلان کر دیا جس کی وجہ سے نہ صرف معیشت اور کاروبار دھڑام سے گر گئے بلکہ تیل کے بحران کی وجہ بھی بغیر کسی منصوبہ بندی اور عجلت میں کیے گئے احمقانہ فیصلے بنے۔

تیل کی کوئی بھی کمپنی پابند ہے کہ وہ اوگرا سے NOC لے۔ اس Noc کے ذریعے ان کمپنیوں کو ایک معاہدے پر دستخط کرنا پڑتے ہیں جس کی اوّلین شرط یہ ہے کہ کمپنی حکومت کی ھدایت کے مطابق تیل کا زخیرہ اپنے پاس رکھنے کی پابند ہوگی۔

لاک ڈاؤن کا اعلان ہونے کے بعد سڑکیں گاڑیوں سے خالی ہوئیں اور اس دوران بین الاقوامی تیل کمپنیاں جن میں شیل، ایڈمور ، ھسکول اور باکری وغیرہ شامل تھیں بروقت نئی خریداری کو نظرانداز کر گئیں جس کی وجہ سے ان کا سٹاک زیرو پر آگیا ۔

اس لیے جوں ہی وزیراعظم عمران خان نے لاک ڈاؤن ختم کرنے کا اعلان کیا تو صرف حکومتی کمپنی PSO کے پاس تیل کا سٹاک اور سپلائی دونوں موجود تھے جبکہ پرائیویٹ کمپنیوں کے تیل ڈپو ویران پڑے تھے لیکن اس وقت اہم سوال یہ ہے کہ مس مینیجمنٹ اور غیر ذمہ داری کا مرتکب کون ہوا اور اس بحران کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے؟

کیا لاک ڈاؤن کا اعلان کرنے سے پہلے اوگرا یا وزارت پٹرولیم نے وزیراعظم کو معاملے کی پیچیدگی او آنے والے مشکلات سے آگاہ نہیں کیا تھا؟

کیا تیل کمپنیوں کو وہ معاہدے یاد دلائے گئے تھے جس کے تحت وہ تیل کا ذخیرہ رکھنے کے پابند ہیں ،اگر تیل کمپنیوں نے ذخیرہ نہیں رکھا تو قانون کے تحت اوگرا ان پر بھاری جرمانہ لگا سکتا ہے ۔

لیکن بات وھی کہ ان “طاقتوروں “ کے خلاف ایکشن کون لے گا؟

اس وقت PSO بھی شدید مسائل سے دوچار ہے کیونکہ لاک ڈاؤن ختم ہونے کے بعد جوں ہی گاڑیوں کا ریلہ سڑکوں پر آیا تو صرف PSO کے پاس تیل موجود تھا لیکن ڈیمانڈ اور سپلائی میں بہت بڑا فرق دیکھنے میں آیا جس کی وجہ سے سینکڑوں گاڑیاں قطاروں میں دکھائی دینے لگیں۔

ایک تجربہ کار پٹرول سٹیشن مینیجر سے بات ہوئی تو اس نے بتایا کہ اس وقت صرف PSO سٹیشنز گاڑیوں کو تیل دے رہے ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ عام طور پر 24 گھنٹوں میں اٹھارہ سے بیس ھزار لیٹر کی ڈیمانڈ اور سپلائی ہوتی جو آسانی کے ساتھ ہم مینیج کرلیتے ہیں جبکہ اس وقت دوسری کمپنیوں کی سپلائی رکنے اور پٹرول پمپ بند ہونے کی وجہ سے ھماری (پی ایس او ) ڈیمانڈ ساٹھ ھزار لیٹر پر پہنچ چکی ہے جبکہ سپلائی اسی طرح یعنی بیس ھزار لیٹر سے نہیں بڑھی جس کی وجہ سے دن بھر لوگ ہم سے لڑتے جگڑتے ہیں اور ہم سماجی مسائل کا شکار ہیں۔

ہمیں یہ بات بھی سمجھنا چاہیے کہ کم از کم اس معاملے میں پیٹرول پمپ مالکان ھرگز قصور وار نہیں کیونکہ تیل کمپنیوں نے سپلائی روک دی ہے۔

بعض لوگوں کا خیال ہے کہ پٹرول سٹیشن / پمپ مالکان خود تیل ذخیرہ کر چکے ہیں لیکن ایسا ممکن نہیں کیونکہ محدود پیمانے پر تیل ذخیرہ کرنے سے وہ (اُڑتا) یعنی ہوا میں تحلیل ہونے لگتا ہے جس کا نقصان پمپ مالک اُٹھاتا ہے۔

مختصر یہ کہ تیل کے موجودہ بحران کی تمام تر ذمہ داری حکومت اور تیل کمپنیوں پر عائد ہوتی ہے کیونکہ لاک ڈاؤن لگانے اور پھر لاک ڈاؤن کھولتے وقت اس اہم مسئلے سے صرف نظر کیوں کیا گیا کہ ویران سڑکوں پر ٹریفک کا ریلہ آنے سے پہلے کیا تمام انتظامات مکمل ہیں ؟

کیا وزارت پٹرولیم اور اوگرا لاک ڈاؤن اُٹھانے سے پہلے آئل کمپنیوں کے ساتھ کوآرڈیینیشن میں تھے یا بے خبری کی نیند سوئے ہوئے تھے؟

تیل کمپنیوں نے اس حکومتی ہدایت کو کیوں نظر انداز کیا جس کے تحت وہ تیل کا ذخیرہ رکھنے کے پابند ہیں اور ان کمپنیوں نے بروقت خریداری کیوں نہیں کی؟

اتنی خوفناک غیر ذمہ داری اور تباہ کن مس مینجمنٹ ہے کہ بقول عمران خان یہ برطانیہ میں ہوتا تو۔۔۔

لیکن کیا کریں حکومت بھی طاقتوروں کی ہے اور تیل کمپنیاں بھی کمزور نہیں سو زیادہ سے زیادہ کسی پٹرول پمپ کے مالک کو جرمانہ ہو سکتا ہے۔
یا قطار سے نکلنے پر عوام کو چند ڈنڈے پڑ سکتے ہیں۔

کم از کم اس ملک میں تو فی الحال یہی "مجرم” ہیں اور یہی قانون ھے۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے