کالم

میڈیا: اوپر، نیچے، درمیان

جولائی 31, 2020 4 min

میڈیا: اوپر، نیچے، درمیان

Reading Time: 4 minutes

سعادت حسن منٹو نے اپنے مشہور زمانہ افسانے ”اوپر ، نیچے ، درمیان“ میں معاشرے کے تین مختلف طبقات دکھائے تھے جن کا مقصد ایک سا تھا ۔ آج میں آپ کو میڈیا کا اوپر، نیچے ، درمیان “ کی ایک تازہ اور سچی کہانی سے سناتا ہوں اور پیشگی معذرت چاہتا ہوں کہ شاید آپ کے کبھی آئیڈیل رہ چکے میڈیا ہیروز کی قدر اس کہانی کے بعد آپ کی نظر میں بالکل باقی نہ رہے، آپ سے آپ کے ہیروز چھیننے کی ایک بار پھر پیشگی معذرت ، اب کہانی پڑھیے۔


واقعہ کچھ یوں ہے کہ پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے ہمارے آفس کے کچھ ڈرائیور حضرات پرائیویٹ ٹیکسی بھی چلاتے ہیں تاکہ رات کو بچے روکھی سوکھی کھا کر ہی سوئیں ، اب تو ویسے بھی دو روز بعد عید تھی ، اس لئے اخراجات پورے کرنے کے لئے دن رات ایک کر رہے تھے ۔ ہمارے ایسے ہی ایک ڈرائیور ٹیکسی لئے بلیو ایریا میں کلثوم اسپتال کے باہر موجود تھے کہ ایک بڑے پرائیویٹ منی چینجر کی نئی نویلی ہنڈا سوک ان کی گاڑی سے آ ٹکرائی ۔ یہ ایک حادثہ تھا، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پولیس موقع پر آتی، دیکھتی کہ غلطی کس کی ہے اور اگر غریب ڈرائیور ہی قصوروار نکلتا تو اس پر ذمہ داری بے شک ڈال بھی دی جاتی ۔ یہاں مگر معاملہ کچھ اور ہوا۔

طاقت ، دولت ، شہرت سمیت نہ جانے کون کون سے نشے میں دھت منی چینجر صاحب سے یہ ہضم نہ ہوا کہ آخر ایک غریب آدمی اپنی گاڑی لے کر سٹرک پر آیا ہی کیوں تھا ، سو اسے الگ طرح کی سزا دینے کا سوچا گیا ۔ صاحب بہادر نے اپنے تین مسلح گارڈز کیساتھ غریب ڈرائیور کو گن پوائنٹ پر اپنی گاڑی میں ڈالا اور اغوا کر کے دو گھنٹے تک یرغمال بنائے رکھا ، تشدد کا نشانہ بنایا ۔ دو گھنٹے بعد ڈرائیور کو فون کرنے کی اجازت دی گئی۔ قصہ مختصر یہ کہ معاملہ مجھ سے ہوتا ہوا پولیس تک پہنچا اور یہیں وہ سب ہوا جس نے مجھ سے میرے ہیروز چھین لئے اور مجھے خدشہ ہے کہ آپ بھی ان سے نفرت نہ کرنے لگ جائیں ۔


اب جو منظر میں پیش کر رہا ہوں یہ تھانہ کوہسار کا ہے، ایس ایچ او کا کمرہ شہر کے بڑے بڑے صحافیوں اور بیورو چیفس کے ٹیلی فون سے گونج رہا ہے، یہ فون اس غریب ڈرائیور کے لئے نہیں بلکہ اس امیر ، سیٹھ ، منی چینجر کے لئے کئے جا رہے تھے اور پولیس پر دباو ڈالا جا رہا تھا کہ خبردار منی چینجر کو کچھ مت کہنا ۔ ملک میں انصاف و احتساب کے علمبردار صحافی باقاعدہ اب تھانے پر حملہ آور ہو چکے تھے ۔ بیورو چیفس ٹیلی فون پر تھے تو اپنے رپورٹر تھانے پہنچا دیئے گئے تھے ۔ ڈرائیور چونکہ ہمارے دفتر کا تھا سو ہمارے دفتر ہمارے بیورو چیف صاحب کو بھی سفارش کے لئے فون کرایا گیا ، وہ چونکہ میرے باس ہیں، اس لئے میں ان کی یہاں اگر تعریف کروں تو لوگ مجھے پتہ نہیں چاپلوس اور جانے کیا کیا کہہ گزریں گے لیکن سفارش کرنے والے کو ان کا جواب یہ تھا
”میں کل محشر میں کیا یہ کہوں گا کہ آپ کی کال آگئی تھی اس لئے میں بھی غریب کیخلاف کھڑا ہو گیا تھا؟”

سفارش کرنے والے کے پاس شاید کوئی جواب نہیں تھا سو اس نے فون رکھ دیا خیر ، دوسری جانب ایس ایچ او کا کمرہ اب بھی ایسی غلیظ گالیوں سے گونج رہا تھا جو شاید گوالمنڈی میں بھی کبھی نہ سنی گئی ہوں۔
دو بڑے چینلز کے بیور چیف اور ایک چینل کے پریذیڈنٹ اس سارے عمل میں پیش پیش تھے ۔ یقین مانیں یہ وہی صاحبان تھے جن کو میں آئیڈیل مانتا تھا ، یہ حضرات آصف زرداری اور نواز شریف کی کرپشن پر روز شام کو ٹی وی پر بیٹھ کر مگر مچھ کے آنسو بہاتے ہیں، ٹوئٹر پر یہ تحریک انصاف کے ترجمان بنے ہوتے ہیں اور بغض نواز میں کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ یہ کئی سال سے عوام کو روز ایسی کہانیاں سناتے ہیں کہ عوام انہیں اپنا مسیحا تک مان بیٹھتے ہیں۔

خیر ایک جانب اب تھانہ کوہسار میں پھٹی چپل پہنے بچوں کی روزی روٹی کمانے کی غرض سے نکلنے والا ڈرائیور تھا اور دوسری طرف ایک ارب پتی منی چینجر جس کے تحفظ کے لئیے شہر کے بڑے صحافی صف آرا تھے۔ اور اب بات صرف حادثے کی نہیں تھی ، اس کو اغوا کر کے دو گھنٹے تک ایک بدمست سیٹھ اپنی زاتی حراست میں رکھ چکا تھا۔ میں نے پولیس سے اتنا ہی کہا کہ اگر حادثے میں قصور اس ڈرائیور کا ہے تو ضرور اسی پر ذمہ داری ڈالی جائے لیکن اسے جو اغوا کر کے ریاست کے اندر اپنی ریاست بنانے کی کوشش کی گئی ، اس کا مقدمہ ضرور درج کیا جائے اور مقدمہ درج ہو بھی گیا لیکن تمام بڑے بیورو چیفس کے ٹیلی فون اس میں قابل ضمانت دفعات شامل کرانے میں کامیاب ٹھہرے۔
اس واقعے میں روزنامہ چارپائی اور روزنامہ دن رات سے لے کر بڑے بڑے چینلز کے سینئر جس طرح بے نقاب ہوئے ہیں اس پر اس پروفیشن کی سزا اسے چھوڑ دینا ہی بنتی ہے۔ جس انداز سے شہر کے دل ایف سیون میں ایس ایچ او کے کمرے میں پولیس پر چڑھائی کی گئی اگر یہ کوئی عام بندہ ہوتا تو شاید پولیس اس پر پانچ سات کلو چرس ڈال کر بند کر دیتی۔ ان بے لگام میڈیائی طاقتوروں کو لگام ڈالنا وقت کی اہم ضرورت تو ہے ہی لیکن اس کے ساتھ پولیس کے اعلی حکام کو بھی دیکھنا ہوگا کہ وہ مصلحت میں اپنے ادارے کی رہی سہی ساکھ کا جنازہ کیوں نکال رہے ہیں۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے