مشین کے پرزے نہیں کچھ اور بدلیے
Reading Time: 3 minutesہمارے ہاں کسی ایک واقعہ کو لے کر طوفان برپا کر دیا جاتا ہے اور اگلے روز ایشو کی جگہ کوئی دوسرا مسئلہ سامنے آتا ہے اور پرانا واقعہ دیگر مسائل کے انبار میں دب جاتا ہے۔
سنہ 2000 کی بات ہے کہ فدوی کو سمیڈا نے خود تاجر کاری کے ایک سیمینار سے خطاب کرنے کی دعوت دی تو فدوی کو یہ کہنا پڑا کہ اس ملک میں خود تاجر کاری کی راہ میں بےشمار رکاوٹیں موجود ہیں اور یہ آسانی سے دور نہیں ہو سکتیں کیونکہ ان کی جڑیں بہت ہی گہری ہیں، جیسے یہاں ایک شخص جو یہ کہہ رہا ہوتا ہے کہ اللہ نے رزق مقرر کیا ہوا ہے، اپنی دکان کا شٹر بھی اٹھا رہا ہوتا ہے، جہاں کی ثقافت میں کام کرنے والے کو کمی کہا اور سمجھا جاتا ہے، جہاں سود کو اللہ اور رسول کے خلاف جنگ قرار دیا جاتا ہے لیکن بینک بھی موجود ہیں، گویا تضادات ہی تضادات ہیں۔
عمر شیخ کو لاہور کا سی سی پی او مقرر کیا گیا اور اس پر آئی جی کا ردعمل سامنے آیا تو بھی لوگ دو دھڑوں میں تقسیم ہوگئے، لیکن بدقسمتی سے لوگوں کی اکثریت یہ سمجھنے سے قاصر رہی کہ عمر شیخ تو بس ایک بڑے سائز کی مشین کی گراری سے زیادہ کچھ نہیں ہے، مسئلہ اس مشین میں ہے نہ کہ ایک فرد میں، ناصر درانی یا شعیب صاحب دراصل اس مشین میں کہیں بھی فٹ نہیں ہوتے کیونکہ وہ رِفٹ پیدا کرتے ہیں جبکہ عمر شیخ اس پورے سسٹم میں فٹ بیٹھتا ہے۔
کون نہیں جانتا کہ ہر ایس ایچ او کی ایک ذمہ داری یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ علاقے میں موجود قحبہ خانوں، ڈرگ ڈیلرز اور چھوٹے موٹے اٹھائی گیروں سے ماہانہ وصولی کرتا ہے اور وہ ماہانہ نیچے سے اوپر تک تقسیم ہوتا ہے۔ کون نہیں جانتا کہ آپ ریفرنس، سفارش یا پیسے خرچ کئے بغیر پوسٹنگ نہیں لے سکتے؟
فقط یہ کہہ دینا کہ پولیس کا نظام بہت خراب ہے اور اسے سیاستدانوں نے خراب کیا ہے دراصل مسئلے کی ضرورت سے زیادہ سادہ تشخیص ہے۔
آپ ایک ایس ایچ او کو تنخواہ کیا دیتے ہیں اور اس سے توقع کیا رکھتے ہیں؟ دراصل آپ سوزوکی آلٹو کے ہیسے دے کر مرسڈیز کی خواہش رکھنے والے احمق ہیں۔
آپ ایک پولیس والے کو بعد از ریٹائرمنٹ کیا دیتے ہیں؟ کیا آپ نے اس کے لئے کوئی پولیس پبلک سکول بنایا ہے؟ ریٹائرمنٹ پر اسے گھر دے رہے ہیں؟ کوئی زمین الاٹ کرتے ہیں،اس کے لئے کوئی کمبائنڈ پولیس ہسپتال بنایا ہے؟
اس معاشرے کے امراض ہمہ گیر اور ہمہ جہت ہیں،یہ تقریباً ناقابل حکومت معاشرہ بن چکا ہے۔
عمران خان نے اس ملک کے مسائل کو دانشوروں کی محفل سے نکال کر سڑکوں پر گفتگو کا موضوع تو بنا دیا ہے لیکن بدقسمتی سے وہ چیزوں کو صرف اوپری سطح سے دیکھنے کے اہل ہیں اور مسائل کو حل کرنے کے لئے ان کی تمام تجاویز زیادہ سے زیادہ کسی ردی کی ٹوکری کی زینت بن سکتی ہیں۔
چیزیں درست کرنے کے لئے جن وسائل کی ضرورت ہے وہ سرے سے موجود ہی نہیں ہیں۔
مجھے لگتا ہے کہ صحت، تعلیم یا اصلاحات کے لئے ہمیں ایک طویل المدتی پلان درکار ہے اور اس کا پہلا مرحلہ صرف اور صرف معیشت کو بہتر بنانا ہوگا اور اس کی طرف ان کی سب سے کم توجہ ہے،وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ سیاسی ابتری معیشت کی سب سے بڑی دشمن ہے۔
ایک مثبت سوچ کا حامل شخص ہونے کے باوجود یہ سوچنا اب مجبوری بن چکی ہے کہ پچھلے دس بیس سال میں ارتقائی عمل سے ہم جو انچ دو انچ آگے بڑھے تھے اب ترقی معکوس کا شکار ہیں، اور معیشت کی ماسٹر کی جو سب دروازے کھولتی ہے کو زنگ آلود کر چکے ہیں۔
شاید اب بھی کچھ وقت بچا ہوا ہے اور ہم تمام سٹیک ہولڈرز کو آن بورڈ کرکے مسائل کے حل کی طرف پہلا قدم اٹھا سکتے ہیں لیکن فی الوقت ہمارا سفر شروع ہی نہیں ہوا۔