کالم

اسرائیل و فلسطین سے ہمارا تعلق کیا؟

دسمبر 18, 2020 3 min

اسرائیل و فلسطین سے ہمارا تعلق کیا؟

Reading Time: 3 minutes

مقصد اعتراض یا تنقید نہیں ہے۔ مجھے اسرائیل والے معاملے پر حد سے بڑھی جذباتیت کی سمجھ نہیں آتی۔

دو تین بڑی جماعتوں کے حامی ایک دوسرے کے راہنماؤں کو یہودی ایجنٹ ثابت کرنے کی سرتوڑ کوششیں کر رہے ہیں۔ اس کی وجہ کیا ہے؟

ایک یہ کہ اسرائیل نے فلسطینیوں کی زمین پر ناجائز، غاصبانہ قبضہ کر رکھا ہے؟

دوسری اس حدیث کی من مانی تشریح کہ یہود و نصارٰی مسلمانوں کے دوست نہیں ہو سکتے؟

مطلب یہی دو باتیں ہیں یا کوئی تیسری وجہ بھی ہے؟

اچھا، جس طرح اسرائیل نے فلسطینیوں کی زمین پر ناجائز غاصبانہ قبضہ کر رکھا، بالکل اسی طرح بھارت نے کشمیر پر۔ بھارت سے ہم تین جنگیں بھی لڑ چکے، مگر کبھی سفارتی تعلقات تک منقطع نہیں کئے۔ اب بھی صدق دل سے چاہتے ہیں کہ بھارت مذاکرات کی میز پر آئے۔ بات چیت سے یہ مسئلہ حل کر لیں۔

اگر غاصبانہ قبضہ کسی ملک کو تسلیم نہ کرنے کی وجہ ہے تو یہ وجہ بھارت پر لاگو کیوں نہیں ہوتی؟

امریکا افغانستان اور عراق پر قابض ہوتا ہے تو ہم اس کے فرنٹ لائن اتحادی کیوں بن جاتے ہیں؟

فلسطین اور اسرائیل کے درمیان معاہدے ہو چکے، دونوں نے ایک دوسرے کا وجود تسلیم کر لیا۔ باہمی مخالفتیں اور بداعتمادی یقیناً اب بھی موجود ہے، مگر یہ فلسطین اور اسرائیل کا آپس کا مسئلہ ہے۔

ہمارا اس سے کیا تعلق ہے؟

ہمارا اس سے یہ تعلق ہے کہ یہ کفر اور اسلام کی جنگ ہے؟

مگر فلسطین کی آزادی کی تحریک میں مذہب کا تڑکہ تو حماس نے لگایا تھا۔ پی ایل اے تو ہمیشہ سے ایک نیشنلسٹ اور سیکولر جماعت رہی ہے۔ اور اب بھی ایسا ہی ہے۔ آزادی کی تحریک میں فلسطین کے عیسائیوں، بہائیوں اور حتیٰ کہ چند ایک یہودی دانشوروں کا بھی اتنا ہی حصہ ہے جتنا مسلمانوں کا تو یہ مذہبی معاملہ کیسے ہو گیا؟

کیا بیت المقدس اور مسجد اقصٰی کی وجہ سے؟

مگر بیت المقدس پر جتنا حق ہمارا ہے، اسی قدر یا اس سے زیادہ کیا ان مذاہب کا نہیں ہے جو ہم سے ہزاروں برس قبل سے موجود ہیں اور ان کی مقدس ہستیوں نے، جو ہمارے لئے بھی مقدس ہیں، اس شہر، ان عمارتوں اور ان عبادت گاہوں کی تعمیر کی تھی؟

ہمارا بیت المقدس پر حق فائق کیسے ہے؟

کیا اس لئے کہ ہم نے اسے تلوار سے فتح کیا تھا؟

تو اگر حق تلوار سے منوایا جاتا ہے تو پھر ہم اسرائیل کا حق کیوں نہیں مان رہے؟

پھر اگر یہ مذہبی تنازعہ ہے تو اسلامی ممالک کی اکثریت ایسا کیوں نہیں سمجھتی؟

عرب اسے اپنا اور اسرائیل کا داخلی معاملہ کیوں قرار دیتے ہیں؟

اس بات کا فیصلہ کون، کب، کہاں اور کیسے کر سکتا ہے کہ اس معاملے میں عرب ریاستوں کا موقف درست ہے یا ان غیر عرب ممالک کا جو اسے اب تک مذہبی تنازعہ بنائے بیٹھے ہیں؟

اور کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ اسرائیل پر ریاست پاکستان کا پہلے دن سے جو موقف رہا ہے وہ اپنے عرب اور فلسطینی بھائیوں کی حمایت میں اپنایا گیا تھا؟

اور اگر ایسا ہی ہے تو پھر جب پہلے فلسطینی اور اب عرب اس موقف سے دھڑا دھڑ رجوع فرما رہے ہیں تو ہمارے پاس اس پر ڈٹے رہنے کا کیا جواز ہے؟

اب یہود و نصارٰی والی حدیث پر آ جائیں۔ اگر اسے حکم کے درجے پر لیا جاتا ہے تو پھر اس حکم کا اطلاق ستر اسی نصرانی ریاستوں پر کیوں نہیں ہوتا، صرف ایک یہودی ریاست پر کیوں؟

دوسری طرف مجھے اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے میں کوئی خاص فائدہ دکھائی نہیں دیتا۔

یہ بیوقوفانہ سوچ ہے کہ ہم اسے تسلیم کر لیں تو وہ بھارت کا ساتھ چھوڑ دے گا یا پاک بھارت تنازعے میں نیوٹرل ہو جائے گا۔

ہمارے ملک میں ایسا کیا ہے جس پر اسرائیل سرمایہ کاری کرنے کا سوچے گا؟

ہماری کون سی مصنوعات یا خدمات ہیں جن کی اسے ضرورت ہو سکتی ہے؟

اسرائیل ایسا کیا بنا رہا ہے جو ہمیں اس سے لینا سستا پڑے گا؟

دوطرفہ تجارت اور مشترکہ سرمایہ کاری کے آخر کیا امکانات ہیں؟ شاید کوئی خاص نہیں۔

مطلب کم از کم مستقبل قریب میں کسی اقتصادی فائدے کی توقع بھی خوش فہمی ہے۔

اور اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ صرف ہمارے اسرائیل کو تسلیم کر لینے سے امریکا اور عرب ممالک ہم پر اپنے خزانوں کا منہ کھول دیں گے؟

کہنے کا مقصد یہ ہے کہ بظاہر اسرائیل کو تسلیم کرنا یا نہ کرنا دونوں ہی آپشنز میں کوئی خاص کشش نہیں ہے۔

لیکن اس پر بات تو کی جا سکتی ہے، بحث ہو سکتی ہے، عوام کی رائے لی جا سکتی ہے۔

ایسا کرنے میں کیا برائی ہے؟

اور اگر ایسا کرنا کسی کی خواہش ہے تو اس کے اعتراف میں کیا ہرج ہے؟

ہم ہر معاملے میں مذہب کو گھسیٹ کر مذہب کی آخر کیا خدمت کر رہے ہیں؟

جبکہ اسرائیل کے معاملے پر تو ہمارا مذہبی موقف کم از کم مجھے انتہائی پھسپھسا، بودا اور کھوکھلی جذباتیت پر مبنی لگتا ہے۔

اگر حکومت اسرائیل سے رابطے میں ہے تو اس میں کیا خرابی ہے؟

اگر اپوزیشن کا کوئی راہنما اسرائیل کے سفارتی نمائندوں سے ملتا ہے تو اس میں کیا برائی ہے؟

خرابی اور برائی اس منافقانہ سیاست میں ہے جو حکومت اور اپوزیشن دونوں نے اپنا رکھی ہے۔

کھل کر اپنا موقف لوگوں کے سامنے رکھیں، کچھ حمایت کریں گے کچھ مخالفت مگر کم از کم یہ taboo والا ٹھپہ تو اترے گا۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے