بادشاہ ننگا ہے
Reading Time: 3 minutesاپوزیشن اتحاد کچھ بھی نہ کرے اور محض دھمکیاں دیتا رہے مالکان کی بے بسی اور بدنامی میں اضافہ ہوتا رہے گا۔ تمام اثاثے اور اتحادی بے حیثیت اور بے معنی ہوتے جا رہے ہیں ۔معیشت مسلسل تباہی سے بدترین بربادی کی طرف پہاڑ سے گرے بھاری پتھر کی طرح چیزوں کو اپنی لیپیٹ میں لے رہی ہے۔
سیاستدان سب کچھ دیکھ رہے ہیں اور سمجھ بھی رہے ہیں۔سرکار سے تنخواہ لینے والوں کی تربیت کسی اور چیز کی ہے۔ سرکاری ملازمین کی سیاست میں کامیابی کے پیچھے صرف اور صرف طاقت ہوتی ہے اور کچھ نہیں۔
عدلیہ،میڈیا ، مذہب ، غداری اور کرپشن کو ہتھیار بنا کر ریاست اور اس کے وسائل پر قبضہ کرنے کی پالیسی ہمیشہ کامیاب نہیں ہوتی۔ ہر چیز تبدیل ہوتی ہے۔ مغرب صدیوں تک پادریوں کے قبضہ میں رہا پھر ایک وقت ایسا آیا پادریوں کو ویٹیکن دے کر ریاست پر ان کا قبضہ ختم کرا لیا گیا۔
پاکستان میں بھی اسٹیج سج چکا ہے صرف وقت کا تعین نہیں ہوا کہ پردہ کب ہٹایا جائے گا ۔ ڈرامہ کب شروع ہو گا۔ پی ڈی ایم بھلے اسمبلیوں سے استعفے نہ دے۔ اپوزیشن اتحاد بھلے انتخابات اور سینٹ الیکشن میں بھی حصہ لے۔ اپوزیشن جماعتیں بھلے لانگ مارچ کے فیصلے سے بھی رجوع کر لیں، مالکان کی گردن بری طرح شکنجے میں پھنس چکی ہے۔
سینٹ الیکشن میں اپنی سوغات کو گلگت بلتستان کے الیکشن کی طرح کامیاب کرا دیں صرف بدنامی میں اضافہ ہو گا اور کچھ نہیں ۔
اپوزیشن بہت باریک واردات ڈال رہی ہے۔ وہ بڑی مہارت اور ہنر مندی سے عوام کے سامنے بادشاہ کا ننگا کر رہی ہے۔ عوام بادشاہ کے ننگے پن کا نظارہ کر رہے ہیں اور بہت جلد وہ وقت آن پہنچے گا جب عوام خوف سے نجات حاصل کر کے "بادشاہ ننگا ہے” کے نعرے لگانا شروع کر دیں گے ۔ اپوزیشن اتحاد عملی طور پر عوام کے سامنے مسلسل بادشاہ کی برہنگی پیش کر رہا ہے تاکہ وہ خود بادشاہ ننگا ہے کے نعرے لگانا شروع کر دیں ۔
جس بوجھ سے مالکان نے ایک سال بعد ہی نجات حاصل کر لینا تھی سیاستدان نجات حاصل کرنے کا موقع نہیں دے رہے ۔سیاستدان شرارت سے تماشا دیکھ رہے ہیں کہ مالکان کی کمر اس بوجھ سے کب ٹوٹتی ہے ۔
مالکان کو سیاست آتی تو بہت پہلے بھاگ جاتے لیکن وہ سیاستدانوں کے چکمے میں آ گئے اور جو بوجھ الیکشن نتایج کا سسٹم ناکام کر کے اپنے اوپر لادا تھا اسے اٹھائے پھر رہے ہیں ۔
مالکان کو سمجھ ہی نہیں آ رہی کہ اس بوجھ سے ان کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹنے کو ہے لیکن وہ گاؤں کے چوہدری کی مانند سب کچھ گنوا دینے گے لیکن اپنی انا نہیں چھوڑیں گے اور یہ ضد ہی ان کی کمر توڑ رہی ہے اور یہی بوجھ آخر کام تمام کرے گا ۔
ہم نہیں سمجھتے کہ عوام کے نباض سیاستدان پکڑائی دیں گے۔ آصف علی زرداری نے اگر مالکان کو رسکیو کرنا ہوتا تو فریال تالپور اور خود جیل نہ جاتے ۔ پالتو اینکرز کا نشانہ نہ بنتے۔ جھوٹے اور غلیظ پراپیگنڈے کا نشانہ نہ بنتے ۔
مسلم لیگ ن نے اگر ریسکیو کرنا ہوتا تو شہباز شریف ایسا اثاثہ وزیراعظم ہوتا اور حمزہ شہباز پنجاب حکومت چلا رہا ہوتا۔
مولانا فضل الرحمن نے اگر ریسکیو کرنا ہوتا تو پارٹی میں مولوی شیرانی ایسے خفیہ ہتھیار کو استعمال کرنے کی نوبت نہ آتی۔
سیاستدان جانتے ہیں کہ جو بھی پھنسے ہوئے مالکان کو ریسکیو کرے گا وہ ووٹ کو عزت دو کا تاریخی موقع کھو دے گا ۔
یہ جنگ ہاری جا چکی ہے بس انا اور ضد اعتراف شکست سے روکے ہوئے ہے ۔
ملک غربت ، بھوک اور بے روزگاری کی وجہ سے چوریوں اور ڈکیتیوں کا مرکز بنتا جا رہا ہے ۔عالمی ادائیگیوں کے توازن کی تلوار سر پر لٹک رہی ہے اب گری کہ تب گری۔
عوام کی قوت خرید تیزی سے ختم ہو رہی ہے۔ عوامی بے بسی اور غصے کا لاوہ پھوٹ پڑا تو بلوچستان سے لے کے قبائلی علاقہ جات ،آزاد کشمیر ،گلگت بلتستان ،سندھ اور پنجاب ہر جگہ یہ لاوہ پھوٹے گا ۔ کاش کوئی ہوش کے ناخن لے اور نوشتہ دیوار پڑھ لے کہ سیاستدان صرف دل لگی کر رہے ہیں۔
سیاستدانوں کو سنہری موقع ہاتھ آیا ہے کہ وہ سرکار سے تنخواہ لینے والے سرکاری ملازمین کو انکی ملازمت کی شرائط کے مطابق نوکری کی جانب راغب کریں ۔ سیاستدان کبھی بھی اس سوغات سے نجات نہیں دلائیں گے جو ان کے لئے عطیہ خداوندی ہے ۔ وہ کیوں کفران نعمت کریں ؟ کیا وہ پاگل ہیں۔ گھاگ سیاستدان سمجھ گئے ہیں کہ جو تحفہ مسلط کیا تھا اسی کو مختلف حیلے بہانوں سے اس وقت تک وزیراعظم بنائے رکھیں جب تک مالکان عاجز آکر آصف علی زرداری،نواز شریف اور مولانا فضل الرحمن سے معذرت نہیں کرتے اور ووٹ کو عزت دینے کے ساتھ آئین اور قانون پر عملدرامد اور مستقبل میں اچھے بچوں کی طرح رہنے کی ضمانت نہیں دیتے۔
دوسری صورت میں سیاستدانوں کو کیا ضرورت پڑی ہے کہ وہ ریسکیو کریں ۔ ملک بھی سامنے ہے اور حب الوطنی کا پرچہ بھی سامنے موجود ہے ۔ وقت تیزی سے ختم ہو رہا ہے ۔تم جانو اور عوام جانیں ۔