بھان متی کے کنبے کا لائق تکریم فرد اور معیشت
Reading Time: 3 minutesاس بھان متی کے کنبے میں جو چند لوگ سچ مچ تکریم کے لائق ہیں، ان میں سے ایک جناب شبر زیدی ہیں۔ اس ملک میں رہتے ہوئے محنت کی، نام کمایا، عزت کمائی، اپنے سب اثاثے پاکستان میں بنائے اور یہیں رکھے۔ سلیوٹ ٹو یو سر۔
مسئلہ فقط یہ ہے کہ جناب نے جو انکشافات عہدے سے سبکدوش ہونے کے ایک سال بعد فرمائے ہیں، یہ سب باتیں وہ عہدہ سنبھالنے سے دس برس قبل بھی جانتے تھے۔
صرف وہی نہیں، یہ خاکسار بھی جانتا تھا، آپ کو بھی علم تھا اور کسی ہوٹل میں برتن دھوتا بارہ چودہ سال کا بچہ بھی اس سے کہیں زیادہ حیران کن انکشافات کرنے کی اہلیت رکھتا ہے۔
کیونکہ یہ ہمارا ملک ہے، ہم بھی یہیں پیدا ہوئے، یہیں محنت کی، یہیں نام کمایا، عزت کمائی۔ اور ہمارے سارے اثاثے بھی یہیں پڑے پڑے، خان صاحب کے وژن کی حرارت سے بھاپ بن کر اڑ رہے ہیں۔
سب حالات ایسے ہی تھے بلکہ اس سے بھی دگرگوں کہ تب ایماندار ہینڈسم اقتدار میں نہیں تھا، جب پیپلز پارٹی نے اپنے پانچ برس میں ریوینیو میں بارہ تیرہ فیصد سالانہ کی شرح سے پانچ سال میں ساٹھ باسٹھ فیصد اضافہ کر دکھایا۔
اس سے بھی بدتر حالات تھے، جب مسلم لیگ نون اس بارہ تیرہ فیصد اضافے کو بیس فیصد سالانہ پر لے گئی اور پانچ سال میں ریوینیو دگنا کر دکھایا۔
اس پر کچھ سوڈو اکانومسٹ اٹھتے ہیں اور بیان فرماتے ہیں کہ وہ تو اندھا دھند امپورٹس تھیں جن پر عائد ڈیوٹیز کی وجہ سے ریوینیو بڑھ رہا تھا۔
تو جناب اندھا دھند امپورٹس اس لیے تھیں کہ ملک میں پینتیس چالیس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ہوئی۔
بجلی گھر لگ رہے تھے، میگا پراجیکٹس چل رہے تھے۔ پلانٹس، مشینری اور لگژری آئٹمز کی مانگ بھی تھی، کھپت بھی اور قوت خرید بھی۔
مگر یہ غلط تھا اور ناقابل معافی جرم۔
البتہ آج اس مانگ، کھپت اور قوت خرید کا ستیاناس کر کے خان صاحب پلانٹس، مشینری اور لگژری آئٹمز کی جگہ گندم، چینی اور کپاس باہر سے منگوا رہے، تو یہ سنہری کارنامہ ہے۔ مخے ٹریڈ سرپلس۔ مائی فٹ۔
پہلے چھ ماہ میں ایف بی آر اپنے ٹارگٹ سے سولہ ارب پیچھے رہا ہے۔ جو کوئی ایسی بڑی رقم نہیں۔ بقول ایف بی آر اس نے پچھلے برس کے مقابلے میں سولہ فیصد ریوینیو بڑھایا ہے۔ چشم بددور۔
مگر حقیقت یہ ہے کہ ان چھ ماہ کا اوریجنل ٹارگٹ 2367 ارب روپے تھا، جسے کم کر کے 2197 ارب کیا گیا اور ان میں سے بھی فقط 2087 ارب اکٹھے ہو پائے۔
اب بقیہ چھ ماہ میں سال کا ہدف یعنی 4963 ارب ریوینیو حاصل کرنے کے لیے ایف بی آر نے 2867 ارب روپے مزید اکٹھا کرنے ہیں، یعنی 480 ارب روپے ماہانہ۔ مطلب ناں ہی سمجھیں۔ دو سے تین مرتبہ مزید اہداف پر نظر ثانی فرمائی جائے گی، گزشتہ دو برس کی طرح۔
اور یہ مضمون محفوظ کر لیں۔ ٹھیک چھ ماہ بعد اکتالیس سو یا بیالیس سو ارب کے ریوینیو کو جناب حماد اظہر تاریخی کارنامہ بتا رہے ہوں گے۔
ہمارے پی ٹی آئی کے سمجھدار، پڑھے لکھے، محب وطن دوست اور کچھ بھی نہ کریں، صرف ڈھائی برس میں اپنے ہاتھ سے لکھی پوسٹس ہی پڑھ لیں تو انہیں سمجھ آ جائے گی کہ وہ اس ملک کے ساتھ کیا کر بیٹھے ہیں۔
ڈھائی برس قبل کے آہنی عزائم، نیک ارادوں اور خوش امیدیوں کی بجائے آج کل ان کے ہاں جو کچھ چل رہا اس کا خلاصہ کچھ یوں ہے۔
خان ایک بہترین لیڈر ہے۔
اگر فوج غیر جانبدار ہو اور اپنے کام سے کام رکھے۔
عدلیہ ایماندار اور ہینڈسم ججوں پر مشتمل ہو اور خان صاحب کی مرضی کے فیصلے کرے۔
بیوروکریسی لائق اور اہل ہو اور محمود خان، عثمان بزدار اور جناب عمران خان کے وژن پر کامل ایمان رکھتی ہو۔
اپوزیشن تابعدار ہو، جس کی جانب دیکھ کر خان صاحب منہ پہ ہاتھ پھیریں، وہ پنکھے سے لٹک کر خودکشی کر لیا کرے۔
اسلامی امہ بے چوں و چرا خان صاحب کے ہاتھوں بیعت کر کے انہیں امیر المومنین منتخب کر لے۔
یہ سب سچ ہے اور کم از کم میں اس پر آپ سے سو فیصد متفق۔
اب گزارش صرف اتنی ہے کہ اگلی بار الیکشن میں ووٹ کاسٹ کرنے سے پہلے دیکھ لیجیے گا کہ آپ کی رادھا کے ناچنے کیلئے نو من تیل دستیاب ہے یا نہیں۔
اگر خان صاحب کی گڈ گورننس کے یہ سب پری ریکوزٹس پورے ہوتے ہوئے تو آپ کے ساتھ میں بھی انہیں ووٹ دوں گا۔
لیکن خدانخواستہ پاکستان، اسلامی امہ، دنیا اور کائنات اگر اس وقت بھی خان صاحب کے مدار میں گردش نہ کرتی ہوئیں تو برائے مہربانی لرزتے ہاتھوں، ڈوبتے دل اور عرق آلود جبیں کے ساتھ ہمارے والے چور ڈاکوؤں کو ووٹ کاسٹ کر دیجیے گا۔
کیونکہ انہیں کام کرنے کے لیے خدا کی پوری کائنات زیروزبر کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ ہم جیسے بھی ہیں، وہ ہمیں بہتر سمجھتے ہیں اور ہم سے پیسہ نکلوانا بھی جانتے ہیں۔