یہ بیٹا ریاست جیسا ہوتا تو زندہ ہوتا !
Reading Time: 2 minutesبجلی کا بل زیادہ آیا تو ابا نے جوان بیٹے کو کان میں مزدوری کے لیے روانہ کردیا وہ جوان گلہ کٹوا آیا ہے۔ابا ! کہ اب شاید بل تو کبھی نہ دے پائے لیکن زندگی بھر کا دکھ دے گیا ہے۔ سر تن سے جدا ہے، نعش ٹھنڈی پڑ گئی ہے ، جسم میں حرارت نہیں رہی اور سردی نے اس کا بہتا خون بھی منجمند کردیا ہے۔
مگر نہ جانے کیوں بہنیں اس خون جما دینے والی سردی اور بے سروسامانی کے عالم میں شدید صدمے سے نڈھال اس انتظار میں ہیں کہ کوئی تو آئے، جو ان کے کاندھے تھپتھپائے، ان کی آنکھوں سے آنسو پونچھے، انہیں بتائے کہ ریاست سوئی نہیں ہے۔ مگر یہ عالم ہے کہ شاہ نے دربار سے اعلان جاری کیا ہے کہ اپنے لاشے خود اٹھائیں کوئی نہیں جو آئے اور انہیں بتائے کہ ریاست سوئی نہیں ہے۔ کہ ریاست میں ایسا کوئی نہیں ہے جس نے جوعہد کیا تھا اسے نبھائے۔
بیٹیاں نوحہ کناں ہیں ، ابا، اب اسے زمین کے حوالے کیوں نہیں کردیتے ، اب یہ لاشے دفنا کیوں نہیں دیتے کہ وہ جو کہا کرتے تھے کہ جب ہم آئیں گے تو انصاف ہوگا ، تبدیلی ہوگی اب تو وہ بھی کہہ چکے کہ یہ سردی میں پڑی لاشیں دفنا دو ہمارے پاؤں میں مصلحت کی بیڑیاں ہیں۔ مگر یہ کیا ہے کہ وہ جوان خوں جو اب جم گیا ہے یہ وہ مصلحت نہیں سمجھتا ، یہ وہ بے حسی نہیں سمجھتا، یہ وہ ریاست نہیں سمجھتا، یہ وہ سیاست نہیں سمجھتا۔ جو سمجھتا تو بے حسی اوڑھ لیتا، سردی کے دنوں میں گھر سے نہ نکلتا اور زندہ ہوتا ، یہ بیٹا ریاست جیسا ہوتا تو زندہ ہوتا۔
بہن کا کیا ہے اب جی ہی لے گی نہ بچا ہے کوئی بھی ایسا پھرجس کے لاشے پر یوں آہ و بکا کرے گی ۔ بہن کا کیا ہے اسے پتہ ہے نہ کوئی والی ،نہ کوئی ساتھی ، نہ کوئی سایہ نہ سائباں ہے۔ سب لٹ چکا ہے بکھرچکا ہے۔ اب کوئی بھائی بچا ہی نہیں تو کس کے لاشے پر بین کرے گی یہ جی ہی لے گی۔ انصاف والے انصاف کیا دیں گے دلاسہ تو دینے ابھی نہ آئے، کبھی نہ آئے۔
ماں بھی تو ماں ہے بیٹھی ہے لپٹ کر لاشے سے سر کو جھکائے، جسے ایک کانٹا بھی چبھنے نہ دیتی تھی وہ سامنے پڑا ہے گردن کٹائے،اے ماں! اپنے جگر کا لہو پلا کر جسے جوان کیا آخر کب تک اسی کے لاشے کو یوں لپٹے گی۔ یہ لوگ بے حس ہیں یہ زمانہ بے حس ہے پیاری ماں یہاں کوئی نہیں جو اس مظلوم کے لیے فریاد کرے جو اس مظلوم کے حق میں تیرے ساتھ بیٹھے آہ و بکا کرے۔ کسی کو فکر معاش ہے تو کسی کو فکر دنیا۔کسی کا مسئلہ دھرنوں کی وجہ سے راستہ بند ہونا ہے تو کسی کو مغرب میں لگی آگ کی فکر ہے یہ تیری دنیا کا کیا غم منائیں کہ ان کی فکر کھو گئی ہے، ان کا دل مردہ ہے، ان کے احساس سو گئے ہیں۔
خدارا! آپ ہی آخر لاشہ اٹھائیں اسے سپرد خاک کر دیں۔ یہ بھی سنا ہے مقتل میں اعلان ہوا ہے اب کہ جو آئے کفن نہ لائے کہ یہ ہزارہ سب جا چکے ہیں۔ یہ شہر نہیں بسا تو کیا ہے صاحب! وہ شہرخاموشاں بساچکے ہیں۔ کوئی تو جائے وقت کے حاکم کو یہ بتائے جس توسط سے ہیںپیغام بھجوائے وہ وسیلے انہیں عطا ہی کب ہیں وہ حیلے تمہارے پڑھیں بھی کیسے۔ کوئی ہوں وعدے جو ہوں نبھائے بس اب کہ کہہ دو کہ یہ سمجھ لو۔ جو بیٹا گیا ہے وہ بے حس نہیں تھا سو اس کی قاتل ہی بےحسی ہے۔