براڈ شیٹ، مائنس ون ٹو فارمولے اور دائرے کا سفر
Reading Time: 3 minutesبراڈ شیٹ سکینڈل بھی پاکستان کے دوسرے سنگین قسم کے سکینڈلز کی طرح تنازعات کا شکار ہے۔
سنہ 2003 کے اس تنسیخ شدہ معاہدے کی باسی کڑھی میں موجودہ ابال کی کئی وجوہات ہیں۔
ایک بات بہرحال طے ہے کہ اس میں بے شمار باتیں حقیقت سے زیادہ افسانہ لگ رہی ہیں اور ایک ایسے ملک میں جہاں عوام سے کبھی سچ نہیں بولا گیا سازشوں کی تھیوری کو اور بڑھاوا مل رہا ہے۔
الزامات کی توپ کا پہلا رخ تو جنرل مشرف کی طرف ہے کیونکہ براڈ شیٹ کی ہائرنگ ہی مشکوک طریقے سے کی گئی ہے، براڈ شیٹ کی ہائرنگ کے وقت اس کی کُل عمر چھ ماہ تھی اور ریکارڈ پر سکور صفر تھا۔
ہم اگر یہ تصور کر بھی لیتے ہیں کہ باقی تمام کمپنیاں ماہانہ اخراجات کا مطالبہ کر رہی تھیں اور براڈ شیٹ مفت میں وہ کام کرنے کو تیار تھی تو بھی اس کا کوئی فائدہ سمجھ میں نہیں آتا۔
مشرف کا ہدف نواز شریف تھے جو مشرف پر یہ الزام دھر رہے تھے کہ انہوں نے کارگل کی مہم جوئی کے ذریعے بھارت سے صلح کے امکانات کو سبوتاژ کیا تھا، مارشل لا لگانے کا ارادہ رکھتے تھے اور منتخب حکومت کے خلاف بے شمار شازشوں کے مرتکب تھے۔
مشرف بہرحال ناجائز طور پر اقتدار پر قابض تھے اور ان کے شریک مجرموں میں پاکستان کی عدلیہ بھی شامل تھی۔
اس ناجائز قبضے کو درست ثابت کرنے کے لئے انہیں نواز شریف کے خلاف کسی سٹف کی ضرورت تھی جو انہیں بہرحال دو ہزار تین تک نہیں ملا، البتہ براڈ شیٹ نے انہیں کچھ شیڈی سیاستدانوں مثلاً آفتاب شیرپاؤ اور فیصل صالح حیات جیسے سیاستدانوں اور ممکنہ طور پر کچھ سرکاری ملازمین کے بارے میں مصدقہ اطلاعات فراہم کیں جنہیں مشرف نے ملک و قوم کے لوٹے ہوئے پیسے وصول کرنے کی بجائے اپنے اقتدار کی ناجائز طوالت کے لئے استعمال کیا۔
اس لحاظ سے براڈ شیٹ کا یہ مطالبہ کہ ان کو اس پیسے میں سے جس کی انہوں نے نشاندہی کی، حصہ دیا جائے۔
اب ذرا ماضی سے حال کی طرف آتے ہیں۔
موساوی کے علم میں ہے کہ اس وقت انہیں نواز شریف یا زرداری کوئی فائدہ نہیں دے سکتے اور عمران خان اس نفسیاتی بیماری یعنی OCD کا شکار ہیں اور وہ اپنے اس جنون کا پیچھا کرکے اپنے سیاسی مخالفین کو ناک آوُٹ کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں اس لئے اس نے بنا کسی ثبوت کے گول مول گفتگو کی جس میں نواز شریف اور زرداری کو بدنام کرنے کی کوشش کی اور اشاروں اشاروں میں یہ بھی تسلیم کیا کہ وہ عمران خان سے رابطے میں ہیں۔
اسی دوران انہوں نے کچھ ایسی باتیں بھی کیں جو نہایت واضح تھیں، یعنی جنرل ملک وغیرہ کا براہ راست نام لیا، جس سے ایک اور بات طے ہوگئی کہ اس وقت بھی جو کچھ ہوا اس میں شفافیت کہیں موجود نہیں ہے۔
ہائی کمیشن کے اکاوُنٹس کو سفارتی استثنیٰ نہ مل سکنا اور ان میں اتنی رقم کا موجود ہونا بھی ایک سازش کا حصہ محسوس ہو رہا ہے۔
اس سے پہلے ملک ریاض کی برطانیہ میں موجود جائیداد کو نیشنل کرائم ایجینسی کے ذریعے تشخیص کے بعد بھی ایسی حکومت جس کا نعرہ ہے احتساب تھا بالکل غیر شفاف انداز اختیار کیا اور جس طرح سے اس خبر کو میڈیا سے فیڈ آؤٹ کیا گیا وہ بھی ایک بدنما دھبہ ہے۔مرے کو مارے شاہ مدار کے مترادف اس رقم کو جس طرح ملک ریاض پر عائد کردہ جرمانے میں ایڈجیسٹ کیا گیا وہ بھی اکراس دا بورڈ احتساب کے دعوے کی پرزور تردید ثابت ہوا۔
اس سارے عمل میں ایک بات جو کھل کر سامنے آئی وہ یہ ہے کہ سیاستدان ایک آسان ہدف ہیں اور ان کو ہدف بنانے میں ایک خاص حکمت موجود ہے۔
پانامہ لیکس میں دو سو افراد کا نام تھا جن میں سے دس بھی سیاستدان نہیں تھے اور ہدف صرف ایک فرد کو بنایا گیا۔
اسی طرح براڈ شیٹ فیصلے کو جس دن بھی پبلک کیا گیا یہ قلعی بھی کھل جائے گی کہ دو چار سیاستدانوں کے علاوہ کتنے سرکاری ملازم اس واردات میں شامل تھے، اسی لئے بظاہر ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ یہ فیصلہ بھی حمود الرحمن کمیشن رپورٹ ہی ثابت ہوگا۔
ان دنوں شبر زیدی کو بھی میڈیا پر لانچ کیا گیا، جن کی باتوں کا ایک ہی نتیجہ نکلتا ہے کہ ہر بڑے کاروباری سیکٹر میں نہایت طاقتور لوگ بیٹھے ہیں جو اپنے مفادات پر کسی قسم کی زد نہیں آنے دیتے، یقینی طور پر یہ لوگ بھی سیاستدان نہیں ہیں کیونکہ ان کے تو جوتے اور میک اپ کٹ کو بھی میڈیا زیربحث لاتا ہے بلکہ ان کی ہر تصویر کو مسخ کرنا اپنا فرض سمجھتا ہے۔
پاکستان کا ایک بھی مسئلہ کسی مائنس ون یا مائنس ٹو فارمولے سے نہیں نکل سکتا بلکہ آپ کو ماضی سے نکل کر مستقبل کے لئے سوچنا ہوگا اور کہیں نہ کہیں ایک لکیر لگانی ہوگی، بصورت دیگر ہم دائرے کا یہ سفر تو ضرور کرتے رہیں گے منزل کبھی نہیں پا سکیں گے۔