تحریک عدم اعتماد کا مشورہ اور سیاسی ہلچل !
Reading Time: 2 minutesکراچی، رپورٹ: عبدالجبارناصر
پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے لاڑکانہ میں گفتگو کرتے ہوئے اپوزیشن اتحاد ’’پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم)‘‘ کو حکمت عملی تبدیل کرکے وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا مشورہ دیکر سیاسی حلقوں میں ہلچل پیدا کردی ہے اور بعض سنجیدہ حلقے بلاول بھٹو زرداری کے مشورے کو دراصل اپوزیشن کی نئی حکمت عملی قرار دے رہے ہیں، موجودہ اعلانیہ اپوزیشن اتحاد اور اعلانیہ حکومتی اتحاد میں صرف 8 نشستوں کا فرق ہے اورایم کیوایم حمایت و مخالفت تحریک عدم اعتماد میں اہم ہوگی، ذرائع کا کہناہے کہ بعض مقتدر حلقوں کی خواہش بھی ہے کہ نئے انتخابات کی بجائے ’’ان ہائوس تبدیلی‘‘ بہتر آپشن ہوگا۔
قومی اسمبلی کی 342 میں سے 339 نشستیں اس وقت پُرہیں اور 3نشستوں پر 21 فروری تک پولنگ ہوگی اور تینوں نشستیں اپوزیشن کے 3 مضبوط ممبران کے انتقال سے خالی ہوئی ہیں اور ماہرین ضمنی انتخاب میں اپوزیشن کو مستحکم قرار دے رہے ہیں۔ اس وقت339 رکنی ایوان میں اعلانیہ حکومتی اتحاد کو 7 جماعتوں کے 178 ارکان ، جبکہ اپوزیشن کے اعلانیہ اتحاد کو 158 ارکان کی حمایت حاصل ہے ۔ دو آزاد ارکان اور جماعت اسلامی کے ایک رکن کے بارے ذرائع کا دعویٰ ہے کہ وہ موقع دیکھیں گے۔
حکومتی اتحاد میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)کے 156، متحدہ قومی موومنٹ پاکستان (ایم کیو ایم )کے 7، پاکستان مسلم لیگ (پی ایم ایل) کے 5، بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی)کے 5، گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس(جی ڈی اے) کے 3 اور عوامی مسلم لیگ(اے ایم ایل )اور جمہوری وطن پارٹی(جے ڈبلیو پی)کا ایک ایک رکن ہے۔ اپوزیشن اتحاد میں پاکستان مسلم لیگ(ن)کے 83، پاکستان پیپلزپارٹی پارلیمنٹیرینز (پی پی پی پی)کے 54، جمعیت علماء اسلام پاکستان کے 14، بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی )کے 4، آزاد ارکان 2 اور عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی)کا ایک رکن ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ دو آزاد ارکان سندھ سے سید علی نواز شاہ ، بلوچستان سے محمد اسلم بھوتانی اور جماعت اسلامی کے ایک رکن کے بارے کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔
قومی اسمبلی کی 3 نشستیں خالی ہیں ، جن میں این اے 45 کرم ایجنسی ون، این اے 75 سیالکوٹ 4 اور این اے 221 تھر پارکر شامل ہیں ، اولذکر دونشستوں کے لئے پولنگ 19 اور آخرالذکر نشست کے لئے 21 فروری کو پولنگ ہوگی ۔ یہ نشستیں بالترتیب جمعیت علماء اسلام پاکستان، مسلم لیگ(ن)اور پیپلزپارٹی کے ممبران کے انتقال سے خالی ہوئی ہیں اور مبصرین کا کہناہے کہ تینوں حلقوں میں مذکورہ جماعتوں کے امیدواروں کی پوزیشن مستحکم ہے اور اپوزیشن اپنی کھوئی ہوئی تینوں نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوتی ہے تو ان کے ارکان کی تعداد 161 ہوگی۔
پیپلزپارٹی کے ذرائع کا دعویٰ ہے کہ اعلانیہ حکومتی اتحاد میں شامل دو جماعتوں اور دیگر 4 ارکان سے رابطے ہیں اور وہ تحریک کی حمایت کریں گے ۔ پیپلزپارٹی کا دعویٰ درست ہے تو اپوزیشن اتحاد کی مجموعی تعداد 165ہوگی اور تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے لئے 172 ارکان کی حمایت درکار ہے۔اس صورتحال میں متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے 7 ارکان کو انتہائی اہمیت حاصل ہوگی۔ وزیر اعظم عمران خان موجودہ اعلانیہ اتحادیوں کو راضی رکھنے میں کامیاب رہے تو تحریک عدم اعتماد کی ناکامی یقینی ہے۔
ذرائع کا کہناہے کہ بعض مقتدر حلقوں کی بھی یہ خواہش ہے کہ کوئی تبدیلی لانی ہوتو نئے انتخابات کی بجائے ’’ان ہائوس تبدیلی‘‘ کے ذریعے لائی جائے اور ممکن ہے کہ بلاول بھٹو زرداری کا اپوزیشن کو مشورہ اسی ضمن میں ہو۔