منشیات، نکوٹین والی ولایتی نسوار اور پاکستان
Reading Time: < 1 minuteپوری دنیا میں ایک طرف جہاں منشیات کی روک تھام کیلئے اقدامات جاری ہیں وہیں پاکستان جیسے ملک میں آج بھی یہ بحث ہو رہی ہے کہ اگر ڈبے میں بند کر کے خوبصورت پیکنگ کے ذریعے نسوار بیچی جائے تو وہ منشیات کے زمرے میں نہیں آتی۔
فروری کے تیسرے ہفتے میں ایک طرف ملک بھر میں منشیات کے حوالے سے روک تھام اور اگاہی سے متعلق مختلف ریلیوں کا انعقاد ہوا وہیں دوسری جانب خوبصورت پیکنگ میں دستیاب ایک نیکوٹین نسوار بنانے والی کمپنی نے اسلام آباد کے ایک بڑے ہوٹل میں معلوماتی پروگرام کا انعقاد کرایا۔
اس پروگرام کے ذریعے یہ تاثر دیا گیا ویلو نامی ولایتی نسوار کم نقصان دہ ہے حالانکہ اگر باریک بینی سے ولایتی نسوار والی ڈبی کا جائزہ کیا جائے یا دیکھا جائے تو واضع انداز میں بڑے بڑتے انگریزی کے حروف کیساتھ یہ لکھا ہوا ہے کہ اس ولایتی نسوار میں نہ صرف نکوٹین کی مقدار موجود ہے بلکہ اس کے استعمال سے آپ اس کے عادی بھی ہو سکتے ہیں۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں اس وقت ساٹھ سے ستر لاکھ افراد منشیات سے متاثرہ ہیں اور منشیات فروشوں کا اصل ٹارگٹ معصوم بچے ہیں۔
میری نظر میں اس ولایتی نسوار کاوزیر انسداد منشیات بریگیڈیئر ریٹائرڈ اعجاز شاہ کو جائزہ لینا چاہیے۔
بریگیڈیئر ریٹائرڈ اعجاز شاہ ہوسکتا ہے اس ولایتی نسوار کا جائزہ لینے کے بعد کسی منطقی نتیجے پر پہنچ سکیں کہ واقعی میں نسوار کی کوئی نئی قسم ہے یا کوئی کینڈی یا چیونگم ہے۔