پاکستان24 متفرق خبریں

اہم مقدمات جلد نہ نمٹانے سے عدلیہ کی ساکھ خراب ہو رہی ہے: جسٹس قاضی فائز

مارچ 15, 2021 5 min
سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا تعلق بلوچستان سے ہے۔ فوٹو: پاکستان ٹوئنٹی فور

اہم مقدمات جلد نہ نمٹانے سے عدلیہ کی ساکھ خراب ہو رہی ہے: جسٹس قاضی فائز

Reading Time: 5 minutes

سپریم کورٹ نے بلدیاتی انتخابات کرانے میں تاخیر کے کیس میں پنجاب حکومت پر برہمی کا اظہار کیا ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ تعجب ہو رہا ہے کہ پنجاب حکومت کیا کر رہی ہے،پنجاب حکومت سے اپوزیشن برداشت نہیں ہوتی، صوبائی حکومت نے دانستہ پنجاب کے 12 کروڑ عوام کو بنیادی مسائل کے حل سے محروم کیا ہے، حکومت اقتدار کے نشے میں پنجاب کو ملک سے الگ کرنا چاہتی ہے۔

کیس کی سماعت کے دوران چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کا تذکرہ بھی ہوا۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا چیئرمین سینیٹ کا الیکشن کرانے والا بندہ الیکشن کمیشن کا نہیں لگ رہا تھا۔

رپورٹ: جہانزیب عباسی

پیر کو سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس سردار طارق مسعود پر مشتمل دو رکنی بینچ نے بلدیاتی انتخابات کیس کی سماعت کی۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس نہ ہونے پربرہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے حکومت ملک چلانے کی اہل نہیں ہے یا فیصلے کرنے کی؟ دو ماہ سے مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس کیوں نہیں ہوا؟ پاکستان چلانے کی بنیاد ہی مردم شماری ہے، کیا مردم شماری کے نتائج جاری کرنا حکومت کی ترجیح نہیں؟ تین صوبوں میں حکومت کے باوجود کونسل میں ایک فیصلہ نہیں ہو رہا، عدالتی حکم کے باوجود اجلاس ملتوی ہونا آئینی ادارے کی توہین ہے،کوئی جنگ تو نہیں ہو رہی تھی جو اجلاس نہیں ہوسکا۔

جسٹس فائز عیسیٰ نے مزید کہا کہ اب تو ویڈیولنک پر بھی اجلاس ہوسکتا ہے، مردم شماری 2017 میں ہوئی تھی چار سال گزر گئے۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس 24 مارچ کو ہوگا، حساس معاملہ ہے حکومت اتفاق رائے سے فیصلہ کرنا چاہتی ہے۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ مشترکہ مفادات کونسل کی رپورٹ کو خفیہ کیوں رکھا گیا ہے؟اچھا کام بھی خفیہ ہو تو شکوک و شبہات جنم لیتے ہیں، کیا ملک میں اس انداز میں حکومت چلائی جائے گی؟عوام کو علم ہونا چاہیے کہ صوبے کیا کر رہے ہیں اور وفاق کیا۔

سپریم کورٹ نے پنجاب میں لوکل گورنمنٹ آرڈیننس لانے پر بھی مایوسی کا اظہار کیا۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے الیکشن کمیشن کے مطابق حکومت کی جانب سے نیا بلدیاتی قانون لانے سے پیچیدگی پیدا ہوگئی ہے، سادہ الفاظ میں پنجاب حکومت بلدیاتی انتخابات کروانا ہی نہیں چاہتی۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پوچھا پنجاب اسمبلی میں کتنے ارکان ہیں۔ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے جواب دیا 374 ارکان پر مشتمل پنجاب اسمبلی ہے۔جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے کہا کہ کیا گورنر پنجاب ان 374 ممبران سے زیادہ اہل ہے،کون ہے گورنر پنجاب۔ پنجاب حکومت کے وکیل نے جواب دیا گورنر پنجاب کا نام چوہدری محمد سرور ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کیا گورنر پنجاب وائسرائے ہیں،کیا گورنر پنجاب عوام کے نمائندے ہیں یا صدر مملکت کا انتخاب۔

پنجاب حکومت کے وکیل نے کہا گورنر پنجاب وزیر اعظم کے مشورے پر صدر مملکت کی جانب سے تعینات کیے گئے ہیں۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کیا ہم دوبارہ برطانوی راج میں داخل ہوچکے ہیں،ایک بندے کی خواہش پر پوری پنجاب اسمبلی کو بائی پاس کیا گیا، گورنر پنجاب پاکستانی ہیں یا باہر سے درآمد کیے گئے ہیں۔

ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کہا گورنر پنجاب کی پیدائش پاکستان کی ہے تاہم انھوں نے زندگی کا کچھ حصہ برطانیہ میں گزارا ہے۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پوچھا کیا گورنر پنجاب دوہری شہریت کے حامل ہیں۔ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کہا گورنر پنجاب نے برطانوی شہریت ترک کر دی ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا گورنر پنجاب کو بتائیں کہ وہ کوئی سیاسی بیان نہیں دے سکتے،گورنر پنجاب سیاسی سرگرمی بھی نہیں کر سکتے، پنجاب حکومت الیکشن کمیشن کے تابع ہے، الیکشن کمیشن کے پاس وہی اختیارات ہیں جو سپریم کورٹ کے پاس ہیں۔

کمرہ عدالت میں بات کرنے کیلئے ہاتھ کھڑا کرنے پر سیکرٹری بلدیات پنجاب نورالامین مینگل کی سرزنش بھی کی گئی۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا دوبارہ ہاتھ کھڑا کیا تو باہر نکال دوں گا، آپ سکول میں نہیں آئے کہ ہاتھ اٹھا رہے ہیں۔الیکشن کمیشن کو بلدیاتی قانون میں ترمیم سے متعلق آگاہ کیا تھا،میرے عملے نے مجھے آگاہ کیا ہے کہ کمیشن کو بتایا گیا تھا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سیکرٹری بلدیات پنجاب سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کیا آپ اتنے بڑے افسر ہیں کہ عملہ آپ کو بریف کرے گا؟ مجھے تعجب ہو رہا ہے کہ پنجاب حکومت کیا کر رہی ہے، پنجاب حکومت سے اپوزیشن برداشت نہیں ہوتی،آب پنجاب حکومت ایسا کرے کہ چار ماہ کے بعد نیا آرڈیننس لے آئے، حکومت نے دانستہ پنجاب کے 12 کروڑ عوام کو بنیادی مسائل کے حل سے محروم کیا ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مزید کہا لوگوں کے بنیادی مسائل سٹرک اور پانی وغیرہ کے ہوتے ہیں،کیا گورنر پنجاب پڑھے لکھے آدمی ہیں،جو عمل گورنر پنجاب نے کیا وہ وائسرائے بھی نہیں کرتے تھے۔

کیس کی سماعت کے دوران ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو تحریک انصاف کے منشور کا حوالہ دینا مہنگا پڑ گیا۔

پنجاب حکومت کے وکیل نے جب یہ کہا کہ اقتدار کی نچلی سطح پر منتقلی حکومت کا انتخابی وعدہ اور منشور تھا۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا پہلی بار دیکھا کوئی سرکاری وکیل سیاسی منشور کا حوالہ دے رہا، کیا حکومت اور سیاسی جماعت میں کوئی فرق نہیں رہا؟ آئین کو کچھ تو عزت دیں، آمروں نے آئین کو اتنا پامال کیا شاید آپ کی نظر میں اسکی عزت نہیں رہی، منشور اور انتخابی وعدے سیاسی جماعتوں کے ہوتے ہیں، حکومت کا واحد منشور صرف آئین ہوتا ہے۔

دوران سماعت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے لوکل باڈی آرڈیننس لانے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے ساتھ کیا کھیل ہو رہا ہے، پنجاب حکومت کا بلدیاتی آرڈیننس سپریم کورٹ پر حملہ ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے مطابق لگتا ہے پنجاب میں مشرقی پاکستان والا سانحہ دہرانے کا منصوبہ ہے، لوگوں کو جمہوریت سے متنفر کیا جا رہا ہے، کیا جمہوریت سے متنفر کرکے آمریت کی راہ ہموار کی جا رہی ہے؟ لگتا ہے پنجاب حکومت کو عوام سے شدید نفرت ہے، فوج میں آرڈیننس کا مطلب اسلحہ ہوتا ہے، سارا ملک برباد کر دیا، برطانوی وائسرائے بھی ایسا نہیں کرتے تھے جو گورنر پنجاب نے کیا، کیا قانون شکنی پر حکومت کو قائم رہنا چاہیے؟ جمہوریت بلدیاتی اداروں سے پی پھلتی پھولتی ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا جس انداز میں آرڈیننس جاری ہو رہے ہیں خاموش نہیں بیٹھ سکتے،،آئین پر عمل اور عوام کی مرضی تسلیم نہ کرکے آدھا ملک گنوادیا گیا۔

کیس کی سماعت کے دوران چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کا تذکرہ بھی ہوا۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کیا سینیٹ چیئرمین کا انتخاب الیکشن کمیشن نے کرایا؟۔ڈی جی لاء الیکشن کمیشن نے کہا چیئرمین سینیٹ کا انتخاب سینیٹ خود کراتی ہے۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا آئین میں کہاں لکھا ہے کہ الیکشن کمیشن چیئرمین سینیٹ انتخاب نہیں کرائے گا؟

ڈی جی لاء نے جواب دیا آرٹیکل 60 کے تحت سینیٹ کا اختیار کہ چیئرمین منتخب کرے،۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کیا سینیٹ رولز میں لکھا ہے کہ الیکشن کمیشن کا تعلق نہیں؟ چلیں اس کو ابھی رہنے دیں، چیئرمین سینیٹ کا الیکشن کرانے والا بندا الیکشن کمیشن کا نہیں لگ رہا تھا۔ سپریم کورٹ نے معاملہ چیف جسٹس کو بجھوا دیا۔عدالت نے قرار دیا چیف جسٹس تین رکنی بنچ بنائیں، معاملے کی جلد سماعت کی جائے۔

عدالتی حکم میں قرار دیا گیا رجسٹرار آفس انتخابات سے متعلق مقدمات جلد مقرر کرے، اہم نوعیت کے مقدمات جلد نہ نمٹانے سے عدلیہ کی ساکھ خراب ہو رہی ہے۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے