پاکستان24 متفرق خبریں

افواج پر تنقید کا مجوزہ قانون، پاکستان بار کونسل کے تحفظات

اپریل 8, 2021 2 min

افواج پر تنقید کا مجوزہ قانون، پاکستان بار کونسل کے تحفظات

Reading Time: 2 minutes

افواج اور اس کے اہلکاروں پر تنقید کو روکنے کے مجوزہ قانون پر پاکستان بار کونسل نے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی سے بدھ کو منظور ہونے والے بل کے تحت فوج اور اس کے کسی اہلکار پر تنقید کرنے والے کو دو سال قید اور پانچ لاکھ جرمانہ کیا جا سکے گا۔

اس کے قانون بننے کے لیے قومی اسمبلی اور سینیٹ سے منظوری ضروری ہے۔

پاکستان بار کونسل کے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ اس قانون کو ہتھیار کے طور پر سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال کیا جائے گا۔

اعلامیے کے مطابق ہر محب الوطن شہری ملک کے تمام اداروں کا احترام کرتا ہے، پختونخوا حکومت کا بل کی مخالفت قابل ستائش ہے۔

اعلامیے میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ وفاقی حکومت مجوزہ فوجداری قوانین میں ترمیم کا بل فوری واپس لے، اور اگر یہ بل منظور ہوا تو پاکستان بار کونسل اسے چیلنج کرے گی۔

یاد رہے کہقومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کی طرف سے منظور کیے گئے مسودہ بل کے ذریعے تعزیرات پاکستان میں ترمیم تجویز کی گئی ہے۔ ’کریمینل لا (ترمیمی) ایکٹ بل 2020‘ پاکستان تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی امجد علی خان نے پرائیویٹ ممبر بل کے طور پر گذشتہ سال پیش کیا تھا۔

قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کا اجلاس پارلیمنٹ ہاؤس میں راجا خرم نواز کی زیرصدارت منعقد ہوا تھا اور چیئرمین نے ووٹنگ کروائی تو پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے ارکان نے اس بل کی مخالفت کی تاہم ووٹ برابر ہونے پر چیئرمین نے اپنا ووٹ کا حق استعمال کرتے ہوئے بل کو منظور کر کے قومی اسمبلی میں بھیج دیا۔

بل کے ذریعے تعزیرات پاکستان کے سیکشن 500 میں ایک اور شق کا اضافہ کیا گیا ہے جس میں یہ تجویز دی گئی ہے کہ جو کوئی بھی جان بوجھ کر پاکستان کی مسلح افواج یا ان کے کسی رکن کا تمسخر اڑاتا ہے، عزت کو گزند پہنچاتا ہے یا بدنام کرتا ہے وہ ایسے جرم کا قصوروار ہوگا جس کے لیے دو سال تک قید کی سزا یا پانچ لاکھ روپے تک جرمانہ یا دونوں سزائیں ہو سکتی ہیں۔

تعزیرات پاکستان کے سیکشن 500 میں پہلے ہی ہتک عزت کے خلاف سزا کا ذکر ہے تاہم اس میں صرف اتنا لکھا گیا ہے کہ ’جو کوئی شخص کسی دوسرے کو بدنام کرے گا تو اس کو دو سال کی قید یا جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جا سکتی ہیں۔‘

قائمہ کمیٹی کے اجلاس کے دوران امجد علی خان کا کہنا تھا کہ ’پاکستانی فوج کے ادارے کا تمسخر اڑانے والے پر سول عدالت میں کیس چلے گا۔‘

پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے کمیٹی کے ممبر آغا رفیع اللہ کا کہنا تھا کہ ‘یہ قانون سیاسی انتقام کے لیے استعمال ہوگا، آپ آزادی رائے پر قدغن لگا رہے ہیں۔ اداروں پر نیک نیتی سے کی گئی تنقید بھی اس قانون کے دائرے میں آئے گی۔’

ان کا کہنا تھا کہ’ 22 کروڑ عوام میں سے دو فیصد لوگ بھی اداروں کے خلاف نہیں، اپنے اداروں کے ساتھ سیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑے ہیں۔‘

مسلم لیگ ن کی رکن مریم اورنگزیب کا کہنا تھا کہ ’اس قانون کو متعارف کروایا ہی کیوں جا رہا ہے؟ پاکستان کے شہری کیوں ملکی اداروں کوجان بوجھ کر اشتعال دلائیں گے؟ اس میں ادارے کو بھی متنازع بنایا جا رہا ہے۔‘

امجد علی خان کا کہنا تھا کہ ’یہ قانون کسی کے خلاف نہیں لایا جا رہا ہے۔‘

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے