جسٹس قاضی فائز کیس: ججز کی آپس میں تلخ کلامی
Reading Time: 3 minutesسپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نظرثانی درخواستوں کی سماعت کے دوران بینچ میں شامل ججز کے درمیان شدید تلخ کلامی ہوئی اور جج صاحبان آپس میں الجھ پڑے ، جسٹس مقبول باقر کمرہ عدالت سے اٹھ کر چلے گئے، ججز کے درمیان تلخ جملوں کے باعث جب ماحول زیادہ خراب ہو اتو سماعت میں مختصر وقفہ کیا گیا۔
رپورٹ: جہانزیب عباسی
سپریم کورٹ میں صدارتی ریفرنس نظر ثانی کیس کی سماعت جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں دس رکنی فل کورٹ بنچ نے کی ۔
دوران سماعت جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے صدارتی ریفرنس اے کے خلاف تھا کارروائی بی کے خلاف شروع ہو گئی۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ ایف بی آر کو تحقیقا ت کرنے کا حکم سپریم کورٹ نے دیا حالانکہ یہ اختیار سپریم جوڈیشل کونسل کا تھا۔
جسٹس مقبول باقر نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان سے کہا کہ ہم نے دوسرے فریق کو بھی بتایا تھا وقت کم ہے، آپ مہربانی فرما کر وقت کی اہمیت کو سمجھیں۔
جسٹس منیب اختر نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے کہا آپ اپنا وقت لیں، دلائل اپنی مرضی سے دیں۔اس پر جسٹس مقبول باقر نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا آپ بیچ میں مداخلت نہ کریں،میں آپ سے سینیئر ہوں، یہ کوئی طریقہ نہیں ہے اپنے سینئر جج کو ٹوکنے اور بات کرنے کا ۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ یہاں کوئی ریس تو نہیں لگی ہوئی ۔جسٹس مقبول باقر نے بینچ کے سربراہ سے کہا کہ بندیال صاحب بس بہت ہوگیا، میں نے کبھی جسٹس منیب اختر صاحب کی گفتگو میں مداخلت نہیں کی، ہمارے پاس وقت کی کمی ہے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ میں تو صرف سوال پوچھنا چاہ رہا تھا۔
جسٹس مقبول باقر نے کہا میں نے کبھی آپ کی گفتگو میں مداخلت نہیں کی۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ کیا میں سوال کر سکتا ہے۔جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ سوال پوچھیں۔جسٹس مقبول باقر نے کہا ہم نے دوسرے فریق کو چالیس مرتبہ کہا کہ وقت کی کمی ہے، اگر کوئی جان بوجھ کر مقدمے کو طول دینا چاہتا ہے تو یہ الگ بات ہے، پوری دنیا اس مقدمے کے تناظر میں سپریم کورٹ کی طرف دیکھ رہی ہے۔
اسی دوران جسٹس مقبول باقر نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے پھر مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ عامر رحمان صاحب آپ بہت معقول انسان ہیں اپنے دلائل جلد مکمل کریں،آپ ہمیں عدالتی نظیروں کے حوالہ جات نوٹ کروا دیں ہم پڑھ لیں گے وقت بہت کم ہے۔
جسٹس سجاد علی شاہ نے جسٹس مقبول باقر کی طرف ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے کہا اگر آپ نے یہی رویہ رکھا تو میں اٹھ کر چلا جاؤں گا،بہت ہو گیا ہر چیز کی حد ہوتی ہے۔
اس کے بعد جسٹس مقبول باقر اپنی نشست پر کھڑے ہوئے اور کمرہ عدالت سے چلے گئے ۔
کیس کی سماعت میں مختصر وقفہ کیا گیا جس کے بعد بینچ دوبارہ کمرہ عدالت میں آیا تو جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ جب آپ پانی نہ پی سکیں تو تازہ ہوا میں سانس کافی ہوتا ہے، روزہ کی وجہ سے ہم بھی تازہ ہوا میں سانس لے کر آئے ہیں۔
سرکاری وکیل نے کہا کہ جسٹس مقبول باقر کو میری کوئی بات بری لگی ہو تو معذرت خواہ ہوں۔
بینچ کے سربراہ نے کہا کہ جسٹس مقبول باقر بینچ کی ڈارلنگ ہیں، جسٹس باقر نے کہا کہ آپ کی کوئی بات مجھے بری نہیں لگی۔
وکیل کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 187 کے تحت سپریم کورٹ کے اختیارات پر بات کروں گا۔
جسٹس فائز عیسی نے سرکاری وکیل کے دلائل کے دوران مداخلت کی کوشش کی تو جسٹس منظور ملک نے کہا کہ قاضی صاحب آپکی بہت مہربانی بیٹھ جائیں، قاضی صاحب بار بار کاروائی میں مداخلت نہ کریں۔
سرکاری وکیل کے مطابق کہا جا رہا ہے کہ سرینا عیسٰی کا کیس ایف بی آر کو نہیں بھیجا جاسکتا، سپریم کورٹ کے اختیارات پر عدالتی فیصلے موجود ہیں۔
کیس کی سماعت کل دن ساڑھے دس بجے تک ملتوی کر دی گئی۔