لاری نال یاری کا ہمارا منفرد سفر
Reading Time: 2 minutesسنسان سڑک پر مسلسل بریکیں لگاتی چالیس کلومیٹر فی گھنٹہ کے مقدس ہندسے کو کراس نہ کرنے کی قسم اٹھانے والی استاد مام دین (امام دین) کی لاری سپیڈ صرف شہر اور رش کے قریب آ کر ہی بڑھاتی تھی، بعض سواریاں تو سپیڈ بڑھنے کو ہی کسی سٹاپ آنے کا سگنل قرار دیتیں۔
گاڑی کے اندرونی و بیرونی حصوں پر چیونٹیوں کی طرح چمٹی سواریاں لٹکنے کے باوجود بھی استاد جی ہر سٹاپ پہ بریک لگانا فرض عین سمجھتے، شاید ان کی نظر بس کے ٹائروں کے آگے بمپرز پر تھی جہاں دو چار لوگ بٹھائے جا سکتے تھے۔
دیہاتوں کی پبلک ٹرانسپورٹ میں اگر استاد جی آپ کے جاننے والے ہوں پھر تو کیا ہی کہنے، البتہ یہ چاہت کبھی مہنگی یوں بھی پڑتی ہے کہ آپ کو سیٹ سے اٹھا کر ڈرائیور کے ساتھ ٹاپے پر بیٹھنے کی سعادت مل جاتی ہے۔
گاؤں دیہات میں بس کے استاد سے معمولی جان پہچان انسان کو کاٹن کے کپڑوں کی طرح پھلا دیتی ہے۔
سب کو تگنی کا ناچ نچانے والے ٹرانسپورٹرز کو بزرگ خواتین سیدھا کرنے کی خوب صلاحیت رکھتی ہیں۔ سیٹ مل جائے گی کے سہانے سپنے دکھا کر بس میں سوار کرنے والا کنڈکٹر ہر جمپ، کھڈے کے ساتھ اماں جی کے قہر کا شکار ہوتا ہے اور ہاں اگر آگے سے کوئی جواب دے تو پھر بس کی رفتار سے کئی گنا کپکپاتے ہاتھ چہرے کی جانب اٹھ بھی سکتے ہیں۔
اگلا محاذ کرائے کے موضوع پر گرم ہوتا ہے جہاں سواریاں دادا، پردادا کے زمانے کے کرائے کا آج سے موازنہ کرتے ہوئے بحث سے سفر کو یاد گار بناتے ہیں۔ یہ بحث ابھی چل ہی رہی ہوتی ہے کہ کانوں میں ہینڈ فری لگائے نوجوانوں کا جتھہ بس میں حملہ آوروں کی طرح انٹری مارتا ہے اور نیلام گھر کی طرح کونے کدھرے کی چھان بین شروع کر دیتا ہے، اگر کوئی کرایہ مانگ لے تو سٹوڈنٹ، نہیں تو ٹائم پاس گروپ کے مانیٹر۔
اسی نقار خانے میں ایک نحیف سی آواز لتا، رفیع یا ملکہ ترنم کی بھی ہوتی ہے جو بس میں نصب کسی خفیہ سپیکر سے سنائی دیتی تاہم اس آواز سے بجا طور پر مستفید صرف سپیکر کی نزدیکی نشست پر براجمان ہاتھ میں جلتا سگریٹ پوری مہارت سے چھپائے محتاط سُوٹے لگانے والا منچلا ہی ہوتا ۔ باقی مسافروں کو اگر کسی گانے کا انترا یا مکھڑا کسی ہوا کے جھونکے کی مانند کان پڑتا بھی تو عین درمیان میں کسی بزرگ کے کھنگورے (گلہ صاف کرتی کھانسی) کی نذر ہو جاتا یا پھر کنڈکٹر کی پھیکی جُگت آڑے آ جاتی ہے۔
روڈ پر اگلے کئی کلومیٹر تک ویرانی و سنسانی میں چالیس کی سپیڈ تاہم جیسے ہی شہر قریب آئے سپیڈ بڑھاتے ہوئے ہارن کے بٹن پر ایلفی ڈال کر فکس کرتے ہوئے دور دراز علاقوں کے چرند پرند کو بھی لاری کی آمد سے آگاہ کیا جاتا ہے اور ہر ڈرائیور اپنی ذات میں ایک میوزک کمپوزر بھی ہوتا ہے۔ ہارن کو کس موسیقی سے بجانا ہے یہ ہر ڈرائیور کی تخلیقی صلاحیتوں پر منحصر ہے ، مختلف بٹنوں کو باری باری بجا کر کوئی دھن ترتیب دینی ہے یا صرف ایک بٹن سے ٹاں۔۔۔ ٹاں ۔۔۔۔ ٹاں ۔۔۔ یا پِیں، پیں، پیں کرنا ہے۔
یہ استاد جی کی اپنی چوائس ہے۔
لاری میں جتنی بھی جدت آ جائے لیکن استاد جی والا کلچر ہمارے علاقوں کی انفرادیت ہے ، بہر حال اسے آپ مثبت لیں یا منفی ایسا سفر دنیا میں کہیں نہیں ملے گا جو پاکستان کے گاؤں دیہات کی زندگی کا خاصہ ہے.