آج کے کالمز کالم

اشرف طائی سے اشرف غنی تک صرف شوتوکان

اگست 13, 2021 3 min

اشرف طائی سے اشرف غنی تک صرف شوتوکان

Reading Time: 3 minutes

ہمارے بچپن میں کراٹے کے ایک گرینڈ ماسٹر ہوا کرتے تھے کراچی میں۔ نام تھا ان کا اشرف طائی۔

بچپن میں کئی راتیں یہ سوچتے گزریں کہ اس بیچارے اشرف کو ہر کوئی تائی کیوں سمجھتا اور کہتا ہے؟ یعنی کہ ایک بظاہر ہٹے کٹے، تنومند اور تندخو مرد میں ایسا کیا ہے کہ بیچارہ سب کی تائی کہلاتا ہے؟

پھر پتہ چلا کہ وہ تائی نہیں طائی ہیں۔ گو کہ صوتی مماثلت اتنی ہے کہ اس سے ایک ٹکے کا فرق نہیں پڑتا۔ خیر، تو یہ گرینڈ ماسٹر بھی کہلاتے تھے۔ وہ گرینڈ ماسٹر کیسے بنے، یہ کوئی نہیں جانتا۔ مگر پاکستان میں ہونا ضروری نہیں، کہلانا ہی کافی ہوتا ہے۔ تو آپ گرینڈ ماسٹر کہلاتے تھے۔

آپ کراٹے کے جس سکول آف تھاٹ آر ایکشن کی تبلیغ فرمایا کرتے تھے، وہ شوتوکان کہلاتا ہے۔ شوتوکان کراٹے کا قریب سے جائزہ لینے سے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اس میں واویلا یعنی شورشرابا تو بہت ہے، ایکشن بہت کم۔ یعنی آپ حریف کو اپنی آنیاں جانیاں دکھا کر اور چیخ و پکار کر کے اتنا خوفزدہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ بھاگ جائے۔ اور وہ نہ بھاگے تو آپ بھاگ جائیں۔ ڈاکٹر عامر میر نے غالباً شوتوخانیوں کی اصطلاح اسی شوتوکان کراٹے سے اخذ کی ہے۔

شوتوکان سے یاد آیا کہ افغان فوج بھی بس شوتوخانیاں ہی دکھاتی رہ گئی۔ فریق مخالف نے اسے تائی سمجھ کر اس سے وہی سلوک کیا جو پنجابی تائی کے ساتھ کرتے ہیں۔ مطلب بیچاری مفت میں ماری جاتی ہے۔

جنگ تو یقینی تھی، مگر افغان حکومت اور فوج ایسی ریت کی دیوار ثابت ہوگی، یہ کس نے سوچا تھا۔ کم از کم میں نے نہیں۔ میرا خیال یہ تھا کہ یہ سٹیل میٹ قسم کی جنگ ہونی ہے جس میں کسی بھی ایک فریق کو واضح برتری حاصل کرنے میں بہت عرصہ درکار ہوتا ہے۔ لیکن اب تک کے نتائج اطمینان بخش ہیں۔

اطمینان بخش اس لئے نہیں کہ طالبان کو جیتتا دیکھ کر اچانک دل میں ان کی محبت جاگ گئی ہے۔ بلکہ اس لئے کہ لڑائی جتنی مختصر اور نتیجہ خیز ہو، جانی و مالی نقصان اتنا ہی کم ہوتا ہے۔ اب تک تین چار لاکھ افغان بے گھر ہوئے ہیں۔ مگر وہ انٹرنلی ڈسپلیسڈ ہیں۔ شکر ہے ان کا رخ ہماری جانب نہیں ہوا۔

اطمینان کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ افغانستان اور بھارت نے مل کر پاکستان کو سلامتی کونسل کے اجلاس سے باہر کرنے کی کوشش کی تو تیسرے دن ہی نتیجہ دیکھ لیا۔ ہور چوپو۔

اب دیکھیں اعلیٰ حضرت سیدی و مرشدی جناب اشرف غنی دامت برکاتہم فرار ہو کر انڈیا جاتے ہیں یا امریکا۔ کیونکہ اگر وہ نجیب اللہ کی سنت پر عمل پیرا ہوتے ہیں تو انجام بھی نجیب اللہ والا ہی ہوگا۔

تاریخ خود کو جتنا جلدی جلدی افغانستان میں دہرا رہی ہے، سچ پوچھیں تو یہ دیکھ کر ڈر لگ رہا ہے۔

سویت یونین حالات سنبھالنے افغانستان آیا تھا، مزید بگاڑ کر آخر دلدل سے نکلنا چاہا۔ اس نے بھی جلدی میں انخلاء کا معاہدہ کیا اور پھرتی سے اپنی فوجیں نکال لے گیا۔ اس نے بھی کابل حکومت کو یہی یقین دہانی کروائی تھی کہ فضائی سپورٹ آپ کو میسر رہے گی۔ نجیب اللہ نے بھی پورے افغانستان سے فوج نکال کر کابل میں جمع کر لی تھی مگر وہ اسے بچا نہ پائی۔

یہی سب کچھ امریکا کے ساتھ ہوا ہے اور یہی سب کچھ امریکا نے اشرف غنی کے ساتھ کیا ہے۔ اس لئے یہ سمجھنا بہت آسان ہے کہ تاریخ نے یہاں تک خود کو دہرایا ہے تو وہ آگے بھی دہراتی ہی رہے گی۔

یعنی امن، سلامتی اور استحکام افغان عوام کیلئے خواب تھا اور خواب ہی رہے گا۔ یادش بخیر، نوے کی دہائی میں پرانے مجاہدین سے نجات پانے کیلئے ہمیں طالبان ایجاد کرنا پڑے تھے۔ اب کیا اس معاملے میں بھی تاریخ خود کو دہرائے گی؟

بہرحال اشرف غنی نے بھی آنیاں جانیاں اور چیخ و پکار تو بہت کی، مگر یہ شوتو خانی کسی کام نہ ائی۔ اس لئے اب وہ بھی اشرف تائی کہلانے کے حقدار ہیں۔

وہ تائی جو پنجابیوں کی لڑائی میں بلاوجہ ہی مار کھا جاتی ہے۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے