پاکستان پاکستان24

پاکستان میں اینکرز اور انفلوئنسرز کی جعلی سگریٹ کے خلاف مہم کس کے کہنے پر؟

مئی 28, 2021 3 min

پاکستان میں اینکرز اور انفلوئنسرز کی جعلی سگریٹ کے خلاف مہم کس کے کہنے پر؟

Reading Time: 3 minutes

پاکستان میں گزشتہ دو ہفتوں سے ٹی وی اینکرز اور سوشل میڈیا انفلوئنسرز ٹوئٹر پر جعلی سگریٹ کی فروخت سے قومی خزانے کو ٹیکس کی مد میں پہنچنے والے نقصان کے مسئلے کو اجاگر کر رہے ہیں اور بظاہر اچانک اس وجہ سے کافی پریشان دکھائی دیتے ہیں۔
پاکستان 24 نے ایک تحقیق میں سوشل میڈیا پر سرگرم بعض ٹی وی اینکرز اور یوٹیوبرز کی اس حوالے سے ویڈیوز اور ٹویٹس کا جائزہ لیا تو دلچسپ اور حیران کن حقائق سامنے آئے۔
ایک صحافی نے رابطہ کرنے پر تصدیق کی کہ ان کو ایک خاتون کی جانب سے جعلی سگریٹ کے خلاف ٹویٹ کرنے پر پچاس ہزار روپے ادا کیے گئے۔ کئی ایسے اینکرز اور صحافی بھی نہیں جنہوں نے رقم لے کر ویڈیو بنانے یا ٹویٹ کرنے سے انکار کیا۔
پچاس ہزار وصول کرنے والے صحافی نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ان کے ویریفائیڈ ٹوئٹر اور فیس بک اکاؤنٹس اور فالوورز کی وجہ سے ان کو جعلی سگریٹ کے خلاف ایک ویڈیو اور ٹویٹ کرنے پر رقم کی پیشکش کی گئی۔
‘ویڈیو بنانے سے میں نے انکار کیا اور ٹویٹ کے لیے حامی بھری، ٹویٹ کے الفاظ دیکھے مگر یہ نہیں معلوم تھا کہ اس کے پیچھے مقصد کیا ہے، مجھے پچاس ہزار مل رہے تھے’
صحافی نے ہنستے ہوئے پاکستان 24 کو بتایا کہ سچی بات یہ ہے کہ اب ان کو معلوم ہوا کہ وہ بہت سستے بکے ہیں، لوگوں نے ایک ویڈیو اور ٹویٹ کے دو لاکھ بھی لیے ہیں۔
بجٹ سے قبل پاکستان میں سگریٹ بیچنے والی دنیا کی معروف کمپنیوں نے ڈیجیٹل مارکیٹنگ سے وابستہ چند شخصیات کی خدمات حاصل کیں اور اب یہ افراد صحافیوں، ٹی وی اینکرز اور یوٹیوبرز سے جعلی سگریٹ کی فروخت کے خلاف مہم چلا رہے ہیں۔
ڈیجیٹل میڈیا آؤٹ لیٹس پر ایک جائزے میں معلوم ہوا کہ سگریٹ ساز برطانوی کمپنی نے بجٹ میں ٹوبیکو ٹیکس سے بچنے کے لیے جعلی سگریٹس کے خلاف مہم میں گوگل کو لاکھوں ڈالرز ادا کیے جس کے بعد دیکھا گیا کہ ہر چھوٹی بڑی ویب سائٹ اور یوٹیوب ویڈیوز میں پاکستانی صارفین کو یہ اشتہار نظر آنے لگے۔
اس کے ساتھ اینکرز، یوٹیوبرز اور انفلوئنسرز سے رابطہ کیا گیا کہ وہ ‘قومی خدمت’ کے لیے ویڈیوز بنائیں، ٹویٹس کریں اور اس کے بدلے میں لاکھوں پائیں۔
اس کے لیے رابطے کا طریقہ کار بھی دلچسپ اختیار کیا گیا۔
ٹوئٹر پر ایک خاتون کے اکاؤنٹ سے درجنوں ایسے صحافیوں، اینکرز اور انفلوئنسرز سے رابطہ کیا گیا جن کے فیس بک اور ٹوئٹر اکاؤنٹس ویریفائیڈ ہیں یا ان کے فالوورز کی تعداد لاکھوں میں ہے۔
خاتون کی جانب سے رابطہ کرنے پر یہ تو نہیں بتایا جاتا کہ وہ کس ٹوبیکو یا مارکیٹنگ کمپنی کی نمائندہ ہیں مگر پیغام میں لکھا ہوتا ہے کہ ‘ہم پاکستان میں غیرقانونی تجارت اور اس کے ملکی معیشت کو نقصان کے خلاف مہم شروع کرنے جا رہے ہیں۔ اس میں غیرقانونی سگریٹ کی تجارت پر بھی فوکس کیا جائے گا کیونکہ یہ پاکستان کو سب سے زیادہ متاثر کرتی ہے۔’
پیغام میں مزید لکھا ہے کہ : میں آپ سے تمام مواد ای میل کے ذریعے شیئر کروں گی، جس میں مجوزہ سکرپٹ، ہیش ٹیگ بھی شامل ہوگا تاکہ آپ کو آسانی ہو۔
‘بنیادی طور پر ہم آپ سے دو سے تین منٹ کی مختصر ویڈیو چاہتے ہیں جو آپ کو اپنے ٹوئٹر اور فیس بک پیج پر بھی شیئر کرنا ہوں گی۔’
خاتون پیغام کار کے مطابق وہ قبل ازیں یہ کام مخدوم شہاب الدین اور اقرار الحسن جیسے انفلوئنسرز کے ذریعے کر چکے ہیں اور دیگر بھی اس بار ان کے ساتھ اس میں شریک ہوں گے۔ ‘ہم نے آپ کو بھی اس مہم میں شامل ہونے کے لیے منتخب کیا ہے اور ہمیں آپ کے ساتھ پر خوشی ہوگی۔’
پیغام کے آخر میں لکھا ہے کہ اس کے لیے ہمارا بجٹ ایک لاکھ روپے ہے، ایک منٹ کی مختصر ویڈیو ، آپ کے فیس بک اور ٹوئٹر پر اردو یا رومن اردو میں ٹویٹ بھی چاہیے ہوگی۔
تحقیق میں سامنے آنے والے حقائق کے مطابق ہر سال بجٹ سے قبل پاکستان میں جعلی سگریٹ کی فروخت کے خلاف مہم چلائی جاتی ہے اور اس کے لیے معروف مارکیٹنگ کمپنیوں کی خدمات لی جاتی ہیں تاہم ٹیکس کے بچنے کے لیے ان معاہدوں کو سامنے نہیں لایا جاتا۔
اس مہم کے ذریعے سگریٹ ساز کمپنیاں حکومت پر دباؤ بڑھاتی ہیں کہ بجٹ میں ان پر ٹیکس نہ بڑھائے اور اپنی توجہ جعلی اور غیرقانونی طریقے سے ملک میں بیچے جانے والے سگریٹ کے خلاف کارروائی پر مرکوز رکھے۔
جن اینکرز، انفلوئنسرز اور یوٹیوبرز نے گزشتہ دو ہفتوں کے دوران غیرقانونی سگریٹس کے خلاف اس مہم میں حصہ لے کر ویڈیو بنائیں اور ٹویٹس کیے ان میں وسیم بادامی، اقرار الحسن، علی حیدر، جمیل فاروقی، انعم شیخ، انیقہ نثار، مرتضیٰ علی شاہ، سدرہ میر، عبدالقادر، ارسم طارق، اسد یونس تنولی اور دیگر کئی شامل ہیں۔
تاحال کسی بھی اینکر، انفلوئنسر اور یوٹیوبر نے اس حوالے سے عوام کو آگاہ نہیں کیا کہ وہ جعلی یا غیرقانونی سگریٹ کے خلاف اس مہم میں رقم لے کر شامل ہوئے ہیں اور نہ ہی اس الزام کی تردید کی ہے۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے