جیو حامد میر !
Reading Time: 2 minutesان سے میری پہلی ملاقات اس وقت ہوئی تھی جب وہ سندھ لٹریچر فیسٹیول میں شرکت کرنے کراچی آئے تھے۔ میں نے ان سے پوچھا تھا کہ بغیر دوستی اور بغیر کسی سفارش کے آپ نے ہماری دعوت کیوں قبول کی؟ حالانکہ اس شہر میں آپ پر جان لیوا حملہ ہوچکا ہے اور اس کے بعد آپ پہلی بار کراچی ہمارے اصرار پر چلے آئے۔
میرا سوال سن کر انہوں نے سنجیدگی سے مسکراتے ہوئے کہا تھا کہ میں کے ایل ایف KLFخندک دینا چاہتا تھا۔ اس وقت میں مجھے معلوم ہوا کہ وہ ہر قسم کی اسٹیبلشمینٹ سے ٹکر لینے میں مزہ محسوس کرتے ہیں۔اس دن مجھے معلوم ہوا کے میری طرح انہوں نے اپنی زمانہ طلب علمی میں سیاست کا آغاز ڈی ایس ایف DSF سے کیا تھا۔ پھر ہم نے سوشلسٹ سیاست پر گفتگو کی اور انہوں نے افغانستان میں کمیونسٹ سیاست کے بارے میں مجھے تفصیل سے بتایا اور پھر ہم دوست بن گئے۔
حامد میر خطروں کے کھلاڑی ہیں۔وہ خدا کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے۔ ملک سے وہ بہت محبت کرتے ہیں اور آمریت سے سخت نفرت۔ سندھ اور بلوچستان سے ان کاپیار بے لوث ہے۔ وہ سندھی کلچر کا حصہ بنتے فخر محسوس کرتے ہیں۔ میں نے انہیں دیکھا ہے کہ وہ سندھ کے صوفی فقیر فنکاروں سے فوٹو کھنچاتے ہوئے کتنا خوش ہو رہے تھے۔
مجھے انہوں نے پہلی ملاقات میں بتایا تھا کہ جب کراچی میں مجھ پر قاتلانہ حملہ ہوا تھا تو آغا خان میں ایک غریب سندھی عورت میرے بھائی سے ملی اور اس نے کہا تھا کہ ایک تو میں حامد کو دعا دینے آئی ہوں اور دوسرا یہ کہنے کے لیے آئی ہوں کہ ہم غریب ہیں مگر وہ اپنے شہر میں نہیں بلکہ ہمارے شہر میں ہیں۔ ان کو ان کے اہل خانہ کو اگر ہم کسی طرح کام آسکیں تو ہم حاظر ہیں۔
حامد میر نے بتایا تھا کہ مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ وہ عورت مجھ سے ملنے صرف اس لیے آئی تھی کہ میں نے ”مسنگ پرسنسس“ پر چند پروگرام کیے تھے اور اس کا بیٹا بھی مسنگ پرسنس میں شامل تھا۔ انہوں نے کہا میرے پاس ملک کے بہت بڑے لوگ آئے مگر جو خوشی اور مسرت مجھے اس سندھ کی غریب عورت کے آنے سے ہوئی وہ کسی اور کے آنے پر نہیں ہوئی۔
حامد میر صحافت کی جڑ سے جڑے ہوئے جرنلسٹ ہیں۔ وہ میڈیا کی ٹریڈ یونین کے رہنما نہیں ہیں مگر جب بھی کسی صحافی پر حملہ ہوتا ہے وہ کمر کس لیتے ہیں۔ اس بات کا احساس مجھے اس دن سے ہونا شروع ہوا جب ایک اینکر کی حمایت میں اس وقت سینہ سپر ہوگئے جب ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین پر تنقید کرنے کی پاداش میں اس کو ملازمت سے نکالا جا رہا تھا۔وہ سندھ اور بلوچستان میں کسی بھی صحافی پر ہونے والے حملے کو اپنے آپ پر حملہ محسوس کرتے ہیں۔
حامد میر دریا کے کنارے پر رہتے ہوئے مگر مچھوں سے بیر رکھتے ہیں۔ ان کی وہ حالیہ تقریر جو انہوں نے اسد طور پر ہونے والے حملے کے ردعمل میں کی اس سے پاکستان کے صحافیوں کو بہت بڑا حوصلہ ملا۔ اس بار ان کا جرم یہی تھا۔
ہم اس باغی کے ساتھ کھڑا ہونے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ اور سرعام کہتے ہیں:
”جیو حامد میر“