عشق و محبت کی چند چسکیاں
Reading Time: 5 minutesپہلی چسکی
فطرت انسانی ہمہ رنگ دلچسپیوں کا مرقع ہے۔ ہر ذوق کی اپنی طلب ہوتی ہے۔ ہر تاب کسی نہ کسی دید کی محتاج ہے۔ ہر جبلت اپنی تسکین کی متقاضی ہے۔ علم ریاضی کے اعداد کے گداز سے لطف اندوز ہونے والا حروف ریختہ کے پیچ و خم کے سلجھاؤ سے تسکین حاصل نہیں کرسکتا۔ سائنسی پرابلم حل کرنے والا مسائل میر و غالب سے کماحقہہ واقفیت نہیں رکھ سکتا۔ عشاقِ چاک گریباں کے لیے علم ہندسہ و سائنس کوئی اہمیت نہیں رکھتے تو پھر کیوں آئن اسٹائن کے نظریہ اضافت کی تاویل ہر ایک کے لیے ایک ہی ہے۔ رات کے اس پہر چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے یہ مخمصہ کچھ حل ہوتا نظر آرہا ہے۔ آئن اسٹائن کا نظریہ اضافت یہ ہے کہ اچھی چائے جس طویل عرصے کے بعد دستیاب ہوتی ہے اتنی ہی جلدی ختم بھی ہوجاتی ہے۔ جلدی کا مطلب یہ نہیں کہ راقم الحروف دو گھونٹ میں کپ کا کام تمام کردیتا ہے۔ فراق کا وہ طویل عرصہ سال کے نصف و ربع پر محیط ہوتا ہے۔
دوسری چسکی
ریاضی کا علم ہندسہ ایک بہترین علم ہے۔ ایام طالب علمی میں ٹیچر نے اس کی تعلیم جسمانی و ذہنی دہشت گردی کے درمیان دی ہے، وہ کہتے تھے جیومیٹری تخلیقی صلاحیتوں کو مہمیز کرتی ہے، ان کے پاس موجود چھڑی کے سرے پر لپٹے ٹیسکو ٹیپ دیکھ کر یہ یقین بھی ہوجاتا تھا کہ جیومیٹری تخلیقی صلاحیتوں کو سنوارتی ہے۔ فدوی دونوں قسم کی چھڑی سے معتوب ہونے کا شرف رکھتا تھا، جس چھڑی پر ٹیسکو ٹیپ لپٹا ہوا ہو اس کی مار ذیادہ تکلیف دہ ہوتی تھی۔ چنانچہ علم ہندسہ پر توجہ مرکوز کی اور آج پھر دل چاہتا ہے کہ کلاس میں استاد کے سامنے بیٹھوں اور وہ کوئی گرافک بنانے کا سوال دیں اور جواب میں میری کمی خامی تلاش کرکے وہ چھڑی نکال لیں جس کے سرے پر ٹیسکو ٹیپ لپٹا ہوا ہو۔ ایسی ہی کسی کیفیت میں اقبال نے آرنلڈ کو یاد کیا تھا۔
اب کہاں وہ شوق رہ پیمائی صحرائے علم
ویسے اقبال جیسا شاگرد میسّر ہوجائے تو استاد عموماً مار دھاڑ سے پرہیز کرتا ہے۔
تیسری چسکی
قبلہ گاہی نے مشاعروں میں ساتھ لے جا کر ناپختہ ذہن کو مخمصے میں ڈال دیا تھا، لیکن قبلہ گاہی شاعر نہیں ہیں وہ بہت کام کے انسان ہیں جو اتفاق سے شاعری سے بھی شغف رکھتے ہیں، اس سے پہلے کہ قارئین کوئی غلط فہمی پال لیں اس کی وضاحت ضروری ہے، کم عمری میں مشاعروں میں شرکت کرنے کا اثر یہ ہوا کہ فدوی اردو کے وقفے میں بسا اوقات خود کو مشاعرہ گاہ میں محسوس کرتا تھا، استاد شعر پڑھتے اور یہاں بے ساختہ لبوں "واہ” برآمد ہوجاتی تھی۔ پھر شامت آجاتی تھی۔ یہاں غلط کون تھا ،قبلہ گاہی غلط تھے جو مشاعروں میں لے جاتے تھے یا استاد جو کسی اچھے کلام کی تعریف اس لئے برداشت نہیں کرپاتے تھے کہ وہ کلام ان کا نہیں تھا، شاید میں خود غلط تھا، لیکن دیوانگی کی اس رو کا کیا کروں جو اچانک دماغ میں کلبلا اٹھتی تھی۔ الغرض اردو بہت اچھی زبان ہے بشرطیکہ انسان خود کو شاعر بننے سے محفوظ رکھ سکے۔
چوتھی چسکی
شاعری کا ذکر چھڑ گیا ہے تو خمار صاحب یاد آتے ہیں، وہ اکثر یاد آجاتے ہیں، شیکسپیئر و کنفیوشش کہتے تھے ،خمار صاحب یاد آتے ہیں،
ادھر آ اے خوشی اے مخبر غم
تجھے ہم خوب پہچانے ہوئے ہیں
اقبال نے اپنے خطبات تشکیل جدید (Reconstruction) میں بھی یہی کہا ہے کہ فطرت انسانی کی اصل کیفیت غم ہے اور خوشی ایک عارضی شئے ہے، اقبال و خمار کی تائید و مخالفت میں دفتر کے دفتر سیاہ کئے جاسکتے ہیں لیکن یہ بڑا آسان سا مسئلہ ہے کہ سامنے رکھے چائے کے کہ میں چائے سرد ہوچلی ہے، بے شک روح انسانی کی اصل کیفیت غم ہے اور خوشی ایک عارضی شئے ہے، بہ الفاظ دیگرے ہر خوشی کسی نہ کسی غم کی نقیب ہوتی ہے۔
پانچویں چسکی
چائے اور سیاست لازم و ملزوم ہیں، گلی کی سیاست سے لے کر عالمی سیاست تک سب سے بلیغ تبصرے چائے خانوں میں ہی ہوتے ہیں۔ یہاں موجود ہر شخص امیت شاہ کا باپ اور ڈونلڈ ٹرمپ کا دادا ہے۔ اگر اسے یہیں رگید دیا جائے تو بہت سارے ملکی اور عالمی مسائل ختم کیے جاسکتے ہیں۔ کچھ ترس بھی آجاتا ہے کہ ان کا رویہ عموماً ان والدین جیسا ہوتا ہے جن کی اولادیں ناخلف نکلی ہوں۔ ممکن ہوسکے تو ان کی گفتگو کا حصہ بننے کی بجائے تماشائی بننے کی کوشش کیجیے۔ وہ مسائل لاینحل آن کی آن میں حل ہوتے نظر آئیں جن مسائل کی بنیاد پر بڑی بڑی جنگیں ہوئی ہیں۔ ان کی گفتگو کا زیادہ تر محور باہمی رشتہ داری اور رفاقتیں ہوتی ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ جن دو ممالک میں تعلقات خراب چل رہے ہوں ان دونوں کے مابین شادیوں کی روایت ڈالنی چاہیے۔ دل کو ایک اطمینان ہوتا ہے کہ جب تک ایسے دانا دنیا میں موجود ہیں ہم ناکتخدائی کے عالم میں نہیں مریں گے، لیکن اطمینان پر فوراً ہی اوس پڑ جاتی ہے جب ان کی گفتگو سیاست سے رشتہ داری پر آجاتی ہے اور یہ واضح ہوتا ہے کہ ان کا اصل کام ہی دو دلوں کو ملانا ہے اور وہ چائے خانوں پر بیٹھ کر ہی اپنے اپنے کلائنٹس کے پرائیوٹ معاملات ڈسکس کرتے ہیں۔ اللہ اللہ خیر صلا
چھٹی چسکی
انسان اگر سماجی کے ساتھ دخانی جانور بھی ہو تو چائے کی چھٹی چسکی وہ مرحلہ ہوتا ہے جب سگریٹ سلگائی جاتی ہے۔ پہلی پانچ چسکیوں تک اطراف و اکناف کا جائزہ لیا جاتا ہے کہ اس کی سگریٹ نوشی پر اعتراض کرنے والا کوئی شخص موجود تو نہیں ہے۔ مقصود ایک سچا واقعہ گوش گزار کرنا ہے۔ ایک نوجوان چائے خانہ میں بیٹھا اپنے والد کے واقف کار کو دیکھ رہا تھا۔ دونوں کی نظریں کئی بار ملی مگر واقف کار نے کوئی شناسائی کا اظہار نہیں کیا، مطمئن ہو کر نوجوان نے سگریٹ سلگا لیا اسی وقت اس بندہ خدا نے پکار لگائی کہ تم فلاں کے ہی بیٹے ہو نا؟ یہی دنیا ہے جو اس وقت تک آپ کو نہیں جانے گی جب تک آپ سعادت اطوار نظر آئیں گے، جوں ہی آپ نے کوئی ترقی پسند حرکت کی کسی کونے سے کوئی رجعت پسند بلبلا کر اٹھے گا اور آپ کو تنقید کا نشانہ بنائے گا، ایسے چائے خانوں سے گریز کیجیے جہاں رجعت پسندوں سے مڈبھیڑ کا امکان موجود ہو۔
ساتویں چسکی
شناخت نام ہے شاید اسی اذیت کا
کہ پانیوں میں رہو، رنگ بھی جدا رکھو
غالباً فراق گورکھپوری کا شعر ہے، اس شعر سے فراق کے آخری ایام کے طرز زندگی کو ہرگز تاویل نہیں دی جاسکتی لیکن پانیوں میں رہ کر رنگ جدا رکھنے کی تائید ضرور ہوگی۔ اس راہ میں زندگی میں بہت سی دشواریاں آتی ہیں لیکن انسان بھیڑ کا حصہ نہیں بنتا، کسی سیاسی، مسلکی اور ادبی بھیڑ کا حصہ بننے کی بجائے کسی بلند مقام پر بیٹھ کر ان کا تماشا دیکھنا اچھا ہوتا ہے، لیکن تماشا ہمیشہ محفوظ مقام سے دیکھیے، اکثر اخبارات میں خبریں آتی ہیں کہ دو گروہوں کے درمیان جھگڑے کے بعد فائرنگ ہوگئی جس میں ایک تماش بین کی موت واقع ہوگئی، آپ ایک سیاسی جماعت کے ساتھ وابستہ ہوگئے تو دوسری جماعت پر تنقید کرنا آپ کی ذمہ داری بن جائے گی۔ ایک مسلکی گروہ سے وابستہ ہوگئے تو مخالفین پر دشنام طرازی آپ کیلئے فرض عین ہو جائیگی، اس میں آپ اپنی شناخت رکھنے کی بجائے ایک بھیڑ کا حصہ ہوجائیں گے۔ غور و فکر کے دروازے آپ پر ہمیشہ کیلئے بند ہوجائیں گے یا بند کردیے جائیں گے۔
آخری چسکی
لاحاصل محبت کا افسوس انسان کو تمام عمر رہتا ہے اور وہی محبت کی حیات ہوتی ہے۔ کسی تمنا کی تکمیل درحقیقت اس تمنا کی ہلاکت ہوتی ہے، اس لیے محبت ضرور کیجیے لیکن جوں ہی وہ مکمل ہوتی نظر آنے لگے فوراً کترا کر نکل جائیے اور دوسری محبت کر لیجیے۔ کامیاب عشق انسان کو کلرک بناتا اور ناکام عشق انسان کی تخلیقی صلاحیتوں کو مزید سنوارتا ہے۔