میشا شفیع پر عدالت میں جرح کے سوالات کی اذیت
Reading Time: 4 minutesشاید فکری طور پہ قدامت پسند ہونے کے سبب کچھ معاملات ایسے ہیں جن پر بات کرنا تکلیف دہ لگتا ہے۔ ایسا ہونا نہیں چاہئے، مگر ہوتا ہے کہ ہماری تربیت، مزاج اور سوچ کے زیر اثر کچھ چیزیں ہمیں ناگوار محسوس ہوتی ہیں۔ ہم دانستہ انہیں نظر انداز کر دیتے ہیں۔
خواتین کی جانب سے ہراسمنٹ یا خدانخواستہ ریپ کے الزامات بھی ایک ایسا ہی معاملہ ہے۔ دیکھتا ہوں، پڑھتا ہوں، سنتا ہوں ؛ تکلیف بھی ہوتی ہے مگر جان بوجھ کر انجان بن جاتا ہوں۔ آج مگر تکلیف کچھ زیادہ ہوئی ہے تو آپ کو دیکھنا، پڑھنا بھی پڑے گا اور تکلیف محسوس بھی کرنا ہو گی۔
مجھے یہ تکلیف میشا شفیع بمقابلہ علی ظفر کیس کی کل کی روداد پڑھ کر ہوئی ہے۔ تقریباً ہر معاملے میں اپنے لئے ایک اخلاقی اصول گھڑ رکھا ہے تو کرپشن کی طرح ہراسمنٹ کے معاملات میں بھی میرا اصول یہ ہے کہ "الزام لگانے والے/والی کو سچا سمجھا جائے، جب تک کہ جھوٹ ثابت نہ ہو جائے اور جس پر الزام لگ رہا ہے، اسے بے قصور سمجھا جائے، جب تک کہ وہ مجرم ثابت نہیں ہو جاتا”
میرے لئے میشا شفیع سچی ہیں اور علی ظفر معصوم unless proven otherwise. لیکن یہ کیس ایک کلاسک مثال ہے کہ کوئی عورت اگر اپنے ساتھ ہونے والی مبینہ حق تلفی پہ ڈٹ جائے اور مقابلہ کرنے کی ٹھان لے، تو اسے کیا کچھ دیکھنا، سننا اور سہنا پڑتا ہے۔
ایک، ہمارا ڈیفالٹ ردعمل یہ ہوتا ہے کہ یہ عورت ہی ایسی ویسی ہے۔ خصوصاً انٹرٹینمنٹ انڈسٹری میں چونکہ ہمارے ہاں ایک طویل عرصے تک فیمیل ٹیلنٹ بازار حسن سے آتا رہا ہے۔ تو سوچ یہ بن چکی کہ ہمارے لئے عارف لوہار، شہزاد رائے اور علی ظفر آرٹسٹس ہیں، جبکہ نصیبو لعل، میشا شفیع اور مومنہ مستحسن کنجریاں۔
تو چونکہ میشا شفیع گلوکارہ ہے، ماڈرن لباس پہنتی ہے، میوزک کنسرٹ کرتی ہے تو بھلا اس کی کیا عزت ہو گی؟
دوسرا بھیانک رویہ ہے ظاہری شخصیت یعنی پرسنالٹی کی بنیاد پر رائے قائم کرنا۔ خود پہ اللہ کا کرم ہے اور متعدد مواقع پر اس کا جائز ناجائز فائدہ بھی اٹھا رکھا ہے۔ تو مجھے بہت اچھی طرح اندازہ ہے کہ مجھ سے…… اور آپ سے، کہیں زیادہ ذہین، قابل اور محنتی لوگ ہمارے معاشرے میں محض اس وجہ سے بہت سے مواقع اور امکانات سے محروم رہ جاتے ہیں کہ ان کی ظاہری شخصیت معاشرے میں مروجہ معیار پہ پورا نہیں اتر رہی ہوتی۔
اب چونکہ علی ظفر ماشاءاللہ زیادہ وجیہہ اور خوبصورت ہیں تو ضرور اس نے میشا کو گھاس نہیں ڈالی ہوگی۔ شکل دیکھو اس کی، اسے بھلا کون ہراساں کرے گا؟
اب یہ شکل صورت کی باتیں وہ معاشرہ کر رہا جہاں قبر میں لیٹی عورت، چار پانچ برس کے بچے بچیاں اور حتیٰ کہ بے زبان جانور تک مردوں کی ہوس سے محفوظ نہیں ہیں۔
تیسرا معاملہ سٹیٹس ہے۔ اس کا جامی بمقابلہ حمید ہارون سکینڈل میں بھی احساس ہوا۔ ہم لوگ طاقت کے پجاری ہیں اور ہمارا ڈیفالٹ رویہ طاقتور کے ساتھ کھڑا ہونا ہے۔ بھلے یہ طاقت بندوق کی ہو، پیسے کی یا سٹیٹس کی۔
علی ظفر چونکہ میشا سے کہیں بڑے سٹار ہیں۔ میوزک اور فلم انڈسٹری دونوں میں ان کی ڈیمانڈ ہے۔ مردوں اور خواتین میں یکساں مقبول ہیں تو یقیناً میشا نے ڈرامہ رچایا ہوگا سستی شہرت کیلئے۔
ہماری یہ گھٹیا سوچ، ہر طاقتور کیلئے کمزوروں کے استحصال کے مواقع بڑھا دیتی ہے۔
عدالت میں ایک ڈیڑھ ماہ قبل میشا کی والدہ صبا حمید صاحبہ کو جرح کیلئے طلب کیا گیا۔ ان سے ان کے ذاتی کردار، ان کے مذہبی خیالات پہ سوال ہوئے۔ ڈھکے چھپے لفظوں میں انہیں لبرل یعنی عرف عام میں بے غیرت کہا گیا۔ قیاس آرائی ہوئی کہ چونکہ وہ خود معروف اداکارہ رہی ہیں تو بچوں کی صحیح تربیت نہ کر پائی ہوں گی۔ ان کے بیٹے کے گائے ہوئے گانوں کے بول انہیں سنوائے گئے، کہ یہ کیسی گندی باتیں کرتا ہے، یہ ہے آپ کی تربیت؟
کل میشا پہ جرح کا دن تھا۔ جو سوال ہوئے، خواہش کے باوجود دہرا نہیں سکتا۔ دو تین انڈین فلموں میں، نام نہیں یاد آ رہے، بہت خوبی سے دکھایا گیا ہے کہ عورت ریپ یا ہراسمنٹ کا الزام لے کر عدالت جائے تو وہاں اس سے کیا کچھ پوچھا جاتا ہے۔ کل پاکستانی عدالت میں وہ مناظر دہرائے گئے۔
تیس چالیس مردوں کے درمیان ایک عورت کو کٹہرے میں کھڑا کر کے اس سے خود پہ پیش آنے والے واقعے کی جزئیات سننے کی فرمائش کرنے والے کاش ایک لحظے کیلئے فرض کر لیں کہ یہاں ان کی بہن، بیٹی بھی تو ہو سکتی تھی، تو عدالتی کاروائی عورتوں کیلئے کچھ کم اذیت ناک ہو جائے۔
منصف حضرات کم سے کم اتنا کر سکتے ہیں کہ ایسی جرح صرف دونوں طرف کے وکلاء اور جج صاحب کی موجودگی میں ہو۔ دیگر افراد کو اس دوران عدالت سے نکال دیا جائے۔
کہنے کا مقصد یہ کہ عین ممکن ہے میشا شفیع جھوٹی ہوں، غلط ہوں۔ مگر سماج، میڈیا اور عدالت جو کچھ ان کے ساتھ کر رہی ہے یہ ان ہزاروں لاکھوں سچی خواتین جنہیں روزانہ کام پہ یا گھر میں ہراسانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، کیلئے وارننگ ہے کہ خبردار! جو ایک لفظ بھی منہ سے نکالا تو۔
اور جب میشا کی ایک سہیلی نے آج یہ روداد لکھی تو اس پر درج ذیل تبصرہ دیکھنے کو ملا۔ یہ ہماری مجموعی سوچ کی بھرپور عکاسی کرتا ہے۔