رانا شمیم بیان حلفی کیس، شوکت صدیقی کے ذکر پر عدالت برہم
Reading Time: 8 minutesعمر برنی، صحافی. اسلام آباد
اسلام آباد ہائیکورٹ نے سابق چیف جج گلگت بلتستان رانا شمیم کا بیان حلفی شائع کرنے پر توہین عدالت کیس میں فرد جرم عائد کرنے کی نئی تاریخ 20 جنوری مقرر کر دی ہے.
جمعے کو چیف جسٹس اطہرمن اللہ کی عدالت نےملزمان کو سوچنے کا موقع دیتے ہوئے سماعت ملتوی کی۔
سماعت کے دوران اٹارنی جنرل خالد جاوید خان، ایڈوکیٹ جنرل نیاز اللہ نیازی، ایڈیشنل اٹارنی جنرل قاسم ودود،لطیف آفریدی ایڈووکیٹ،رانا شمیم، انصار عباسی اور عامر غوری عدالت میں پیش ہوئے جبکہ میر شکیل الرحمن اہل خانہ کو کرونا کے باعث عدالت میں پیش نہ ہو سکے.
عدالت نے انصار عباسی سے استفسارکیاکہ آپ نے درخواست دائر کی جس میں کہا کہ عدالت نے کلیرکل غلطی کی، بتائیں کون سی غلطی ہوئی، جس پر انصار عباسی نےعدالتی حکمنامے میں غلطی کی نشاندھی کی اور بتایا کہ جو ان سے منسوب کیا گیا وہ نہیںکہا تھا.
چیف جسٹس نے کہاکہ اس ملک میں کسی زیرسماعت کیس کے قانون کا یا پتا نہیں اور جاننا نہیں چاہتے، اس عدالت سے زیادہ آزادی اظہارِ رائے پر کوئی یقین نہیں رکھتا.
چیف جسٹس نے کہاکہ لطیف آفریدی کو میں نے اپنا معاون مقرر کیا ہے،عدالت اظہار رائے کی آزادی کا بہت احترام کرتی ہے،عدالت سب سے زیادہ سائل کے حقوق کی محافظ ہے، بیانیہ بنایا گیا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کسی کی ہدایت پر عمل کرتی تھی؟، جس دن خبر شائع کی گئی دو روز بعد اپیلیں زیر سماعت تھیں،اگر آپ نے انکوائری کرانی ہے تو کیا بینچ میں بیٹھے ججز سے تفتیش کرنی ہے ؟
چیف جسٹس نے کہا کہ اس عدالت کے بنچ سے متعلق بیانیہ تھا،بیانیہ یہ ہے کہ ثاقب نثار نے ایک جج سے بات کی، لیکن وہ بنچ میں شامل ہی نہیں تھے،جس میں جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب اور میں تھا، وہ اپیلیں بعد میں میرے بنچ نے بھی سنیں. اس بیانیے کے مطابق ہم تینوں پر اثر انداز ہوا جاسکتاتھا، جن کے نام خبر میں لکھے ہیں دو دن بعد ان کے کیسز لگے تھے.
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عدالت نے پوری سماعت میں آپ کو یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ آپ نے کیا غلطی کی ہے، مجھ پرجتنا مرضی کوئی تنقید کرے مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا، آپ کا کیس چل رہاہے اپنے پچھلے اخبار دیکھ لیں آپ کیا چھاپ رہے ہیں،اس بیانیے سے یہ رائے دی جارہی ہے کہ ججز دباؤ میں فیصلے کرتے ہیں،اس قسم کی خبروں کی وجہ سے عوام کا اعتماد ختم ہوتا جارہا ہے، بدقسمتی سے ہمیں بار بار برطانیہ کی ہی مثال دینی پڑتی ہے.
چیف جسٹس نے پوچھا کہ میر شکیل الرحمان کیوں پیش نہیں ہوئے، آج تو چارج فریم کیا جانا ہے؟، انصار عباسی نے بتایاکہ میر شکیل الرحمن اور ان کی پوری فیملی کو کورونا ہوا ہے، قرنطینہ میں ہیں.
چیف جسٹس نے کہاکہ ہماری زمہ داری نہیں کہ آپ کی خبر کی تصدیق کریں،آپ سب نے اگر اس بیان حلفی پر انکوائری کرانی ہے تو ضرور کرائیں، انکوائری بیان حلفی دینے والے کے خلاف نہیں بلکہ اس عدالت کے ججز کے بارے میںہوگی،آپ کی خبر سے تو رائے دی گئی کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز دباؤ میں فیصلے کرتے ہیں،آپ کی خبر سے تو لگتا ہے کہ ججز نے مس کنڈکٹ کیا ہے،انصار عباسی نے کہاکہ میرا مقصد اس عدالت کے بارے میں کوئی غلط رائے قائم کرنا نہیں تھا،رانا شمیم بتائیں گے حقیقت، میں نے کسی جج کا نام نہیں لکھا.
عدالت نے انصار عباسی سے کہاکہ آپ کہہ رہے ہیں کہ ان کا بیان حلفی جھوٹا اور بدنیتی پر ہوسکتا ہے،آپ کو پتہ تھا کہ کیس زیر سماعت ہے اور پھر بھی بیان حلفی کو چھاپا،ذاتی حیثیت میں آپ کی قدر کرتے ہیں، ناسمجھی میں بھی چیزیں ہوجاتی ہے،میرے عدالتی کریئر میں دو دفعہ توہین عدالت کا نوٹس لیا.
دوران سماعت انصار عباسی کی جانب سےچارج فریم نہ کرنے کی استدعاپر چیف جسٹس نے کہاکہ چارج فریم ہوگا تو ہی عدالت آپ کو سنے گی.
سینیئر صحافی ناصر زیدی نے کہاکہ صحافیوں کے ہر مشکل وقت میں آپ نے ہی ہمیں انصاف دیا،آپ نے ہی کہا کہ غلطی انجانے میں ہوسکتی ہے، چارج فریم نہ کریں کوئی درمیانی راستہ نکال دیں.
چیف جسٹس نے کہاکہ کچھ بین الاقوامی ادارے تو اس عدالت پر اظہار رائے پر پابندی کے الزامات لگارہے ہیں، عدالت نے انصار عباسی سے استفسارکیاکہ اس عدالت کا آخری فیصلہ کسی بین الاقوامی ادارے کو بھیجا ہوا ہے؟،انصار عباسی نے کہاکہ جس ادارے نے کہا اس نے مجھ سے کورٹ آرڈر کا نہیں اٹارنی جنرل کے نمبر کا پوچھا تھا،اگر بیان حلفی جھوٹا ہے تو ہم لکھ دیں گے کہ بیانی حلفی جھوٹا ہے، مجھے نہیں پتہ تھا کہ بیان حلفی جھوٹ یا سچ ہے.
چیف جسٹس نے کہاکہ یہ آئینی عدالت ہے اور اس کے اپنے سبجوڈس رولز ہیں،لطیف آفریدی ایڈووکیٹ نے کہاکہ ہر روز کوئی وزیر اور مشیر کوئی نہ کوئی بیان دیتا ہے،عدالت نے کہاکہ یہ جو کچھ ہورہا ہے، ایک معمولی مجرم کے لیے بھی سب سے زیادہ سبجوڈس رولز ہوتے ہیں،اس موقع پر لطیف آفریدی ایڈووکیٹ نےعدالت سے کیس ختم کرنے کی استدعا کی.
انصار عباسی نے کہاکہ میں نے اپنے کیس میں نہ جج کا اور نہ ہی عدالت کا نام لیا،ان کی بیان حلفی میں جو کہا گیا تھا اور وہ ماضی سے جوڑا تھا.
عدالت نے کہاکہ اگر بیان حلفی نہ ہوتا کوئی تحریری بیان ہوتا تو آپ چھاپتے؟
انصار عباسی نے کہاکہ سینئر صحافی ظفر عباس نے ٹویٹ کیا تھا کہ انصار عباسی نے جو کیا میں بھی وہی کرتا اگر بیان حلفی میرے پاس ہوتا.
چیف جسٹس نے کہاکہ ظفر عباس نے اچھا کیا ورنہ اس کو بھی توہین عدالت کا نوٹس جاری کیا جاتا،آپ اب بھی اپنے موقف پر کھڑے ہیں.
عدالتی معاون فیصل صدیقی نے کہاکہ صحافی کا کبھی ایسا خیال نہیں ہوتا کہ توہین عدالت کے مرتکب پائے،انصار عباسی کو کرنا چاہیے تھا کہ تھوڑا انتظار کرتا اور مزید معلومات حاصل کرتے، صحافی کی حد تک یہ معاملہ توہین عدالت کا نہیں، میں صحافی کی حد تک کہوںگا، رانا شمیم کی حد تک نہیں.
اس موقع پر چیف جسٹس نے فیصل صدیقی سے کہاکہ لطیف آفریدی صاحب آپ کو غصے سے دیکھ رہے ہیں، عدالتی معاون نے کہاکہ ریکارڈ میں ایسا کچھ نہیں جس سے ثابت ہوسکے کہ یہ توہین عدالت کے مرتکب ہوئے، ریکلس دستاویزات چھاپنے پر توہین عدالت نہیں ہوتا، میں انصار عباسی سے درخواست کرتا ہوں کہ یہ اپنے سٹانس سے ہٹ جائے،ہم سب آپ سے سیکھ رہے ہیں، فردوس عاشق اعوان کیس میں اس عدالت کا بہت ہی زبردست فیصلہ موجود ہے.
عدالت نے کہاکہ یہاں مسلہ ان کے سٹانس کا ہے اور کوئی پچھتاوا نہیں،یہاں بہت سارے صحافی موجود ہیں مگر عام لوگوں کے حقوق پر عدالتی فیصلے کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی،یہ کیس میری ذات اور میری اس عدالت سے متعلق نہیں، اس عدالت سے ایسا کون سا فیصلہ جاری ہوا جس پر شک کیا جائے جس سے لگے کہ اس عدالت کے کسی جج کو انفلونس کیا جاسکتا ہے، یہ ایک بیانیے کی شروعات ہے.
عدالتی معاون ریما عمرنے کہاکہ جس کی بیان حلفی ہے توہین عدالت اس کے خلاف ہونا چاہیے،آزادی اظہار رائے کے بھی حدود ہوتے ہیں، سابق چیف جج کی بیان حلفی پبلک انٹرسٹ ہے،رانا شمیم کی بیان حلفی اخبار میں کیسی چھپی اور سوشل میڈیا پر کیسے چھپی، یہ دیکھنا ہوگا، فردوس عاشق اعوان کیس بھی پبلیکیشن کا کیس تھا.
چیف جسٹس نے کہاکہ فردوس عاشق اعوان کا کیس پبلیکشن کا کیس نہیں تھا،بنیادی حقوق کی خلاف ورزی عام لوگوں کی ہو تو وہ میڈیا کی نظر میں خبر نہیں،اسی کیس میں آپ اس بیانیے کو ہی دیکھ لیں،عوام کا عدالتوں پر اعتماد نہیں ہو گا تو وہ بھی عدالت نہیں آئیں گے.
فیصل صدیقی نے کہاکہ توہین عدالت اس نے کی ہے جس نے بیان حلفی دیا ہے.
عدالتی معاون ریما عمر نے کہاکہ میں تین قسم کی چیزیں عدالت کے سامنے رکھنا چاہتی ہوں،اگر سابق چیف جج کوئی الزام لگاتا ہے تو یہ مفاد عامہ میں آتا ہے،ہو سکتا ہے لوگوں نے سٹوری کو درست نہ سمجھا ہو ،اخبار میں سٹوری کے بعد لوگوں نے وہ بیان حلفی خود سوشل میڈیا پر شئیر کردیا.
چیف جسٹس نے کہاکہ اخبار چھاپنے والا کہے کہ جو کچھ بیان حلفی میں لکھا ہے وہ ان کی ذمہ داری نہیں؟، برطانیہ میں ایک زیر التوا کیس میں رپورٹر نے رپورٹ کیا تھا کہ ماضی میں فلاں رپورٹ رہا ہے،برطانیہ میں رپورٹر اور ایڈیٹر کو اس بات پر سزا ہوئی تھی، چیف جسٹس نے انصار عباسی سے کہاکہ انصار عباسی صاحب آپ کی ساکھ پر کوئی شک نہیں، لیکن آپ کو غلطی کا احساس نہیں،عدالتی معاون ریما عمر نے کہاکہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے بھی راولپنڈی بار سے خطاب میں الزامات لگائے گئے تھے.
اس موقع پر چیف جسٹس نے برہمی کااظہار کرتے ہوئے کہاکہ کیا آپ شک کر رہی ہیں کہ یہاں کے بنچز کسی کی ہدایت پر بنتے رہے ہیں؟
ریما عمر نے کہاکہ بالکل نہیں، میں جو کہناچاہتی ہوں وہ تو سن لیں، چیف جسٹس نے کہاکہ آپ عدالتی معاون ہیں پلیز اپنی نشست پر تشریف رکھیں، رانا شمیم کے وکیل لطیف آفریدی کو سن لیتے ہیں.
اٹارنی جنرل نے کہاکہ لطیف آفریدی نے پندرہ منٹ مانگے تھے،لطیف آفریدی ایڈووکیٹ نے کہاکہ آج ہم چارج کیلئے تیار ہو کر آئے تھے وہ پندرہ منٹ میں بھول گیا،انصار عباسی کو بہت پہلے سے جانتا ہوں،وہ عوام تک سچ پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں،ہو سکتا ہے کہ اس موضوع پر کم علمی کی وجہ سے ایسا ہوا ہو،بیان حلفی انصار عباسی نے کہیں سے لے کر پبلش کرایا،میرے موکل رانا شمیم نے بیان حلفی کسی کو نہیں دیا تھا، آپ اس کیس میں جہاں تک لے جانا چاہتے ہیں لے جاسکتے ہیں،اس کیس کو جہاں تک بھی لے جائے مگر نتائج کیا ہوںگے ؟،ہمیں لوگوں کو صحیح اور سچ معلومات فراہم کرنا چاہیے.
چیف جسٹس نے کہاکہ لطیف صاحب کہہ رہے ہیں کہ جرنلسٹس کو چھوڑ دیں اور میرے موکل کا کیس چلائیں، چیف جسٹس کے ریمارکس پر عدالت میں قہقہے گونج اٹھے.
لطیف آفریدی نے کہاکہ میں اس کے لیے بھی تیار ہوں کیوں کہ اس طبقے کا سامنا کرنا مشکل ہے،یہ تمام صحافی پڑھے لکھے لوگ ہیں،چیف جسٹس نے کہاکہ آپ کا موکل بھی تو پڑا لکھا ہے، لطیف آفریدی نے ایک بار پھر کیس کو ختم کرنے کی استدعاکی، جس پر چیف جسٹس نے کہاکہ اس کیس کو ختم کریں تاکہ یہ سلسلہ آگے بڑھتا چلے،اٹارنی جنرل نے کہاکہ کافی عرصہ سے مخصوص طریقے سے ایک بیانیہ پیش کیا جارہا ہے،یہ کیس اور فردوس عاشق اعوان کیس کریمنل کنٹپمٹ کا کیس تھا ،سچی یا جھوٹی اس بیانیہ میں ان کے ادارے شامل ہیں،انصار عباسی یا کوئی اور صحافی نہیں بلکہ ان کے ادارے ان معاملات میں ملوث ہیں، انصار عباسی نے کہا کہ اگر یہ بیان کی شکل میں ہوتا تو یہ شائع نہ کرتا ،یہ بیان حلفی نہیں بلکہ ایک بیانیہ ہے،اگر آج کوئی اور بیان حلفی اجائے تو انصار عباسی اور عامر غوری اس کی انکوائری پہلے کریں گے،یہ اداروں کے لئے ایک موقع ہے کہ سیاست میں جو کرنا ہے کرے مگر کسی بیانیہ کو پروموٹ نہ کرے ،عدالت نہیں کہہ سکتی، پریس کانفرنس یا پریس ریلیز نہیں جاری کرسکتے ،عدالت کے محافظ وکلاء ہیں، میں اٹارنی جنرل سے پہلے ایک وکیل ہو ،اٹارنی جنرل نے رانا شمیم کے خلاف چارج فریم کرنے کی استدعاکرتے ہوئے کہاکہ انصار عباسی و دیگر کو کیس میں آگے لیکر جائے،عدالت کے سامنے غلطی کا اعتراف کرنا عزت میں اضافہ ہوتا ہے،بڑے عرصہ سے ایک بیانیہ بنایا جا رہا ہے جسے بنانے والا کورٹ کے سامنے موجود نہیں،جو بیانیہ بنایا جا رہا ہے اس کو ان کا ادارہ پروموٹ کرتا ہے، اخبار کی ہیڈنگ تھی کہ رانا شمیم کا انکشاف،ایک قصور وار یا بے قصور کا ٹرائل کسی صورت متاثر نہیں ہونا چاہئے،انصار عباسی نے کہا کہ بیان حلفی نہ ہوتا تو وہ اسے نہ چھاپتے،رانا شمیم پر فرد جرم عائد کی جائے، ان کا فیئر ٹرائل کا حق ہو گا، باقی میڈیا پرسنز کی حد تک توہین عدالت کی فرد جرم کی کارروائی موخر کی جائے،یہ لوگ عدالتی کارروائی کے دوران موجود رہیں،اگر آج انصار عباسی صاحب کے پاس ایسا بیان حلفی آئے تو وہ یقینا اس کی مزید چھان بین کریں گے،میں نہیں کہتا کہ اس پروسیڈنگ کو ختم کر دیا جائے،میڈیا کو سیاست پر جو کچھ کرنا ہے کریں مگر عدالت کے بارے میں بات نہیں ہونی چاہئے،عدالتوں کی محافظ وکلاء ہوتے ہیں، ان کا کام ہے کہ وہ عدالتوں کی حفاظت کریں،عدالت اپنا موقف نہیں دے سکتی، ججز پریس کانفرنس نہیں کر سکتے،چیف جسٹس نے کہاکہ بیانیہ یہ ہے کہ بینچز کوئی اور بناتا تھا، پھر بینچز پر جو بیٹھے تھے ان کی انکوائری شروع کر دیں،میں پہلے دن سے کہہ رہا ہوں کہ جج تک کوئی رسائی نہیں رکھتا تھا،عدالت نے کہاکہ ایک توہین عدالت کے مرتکب پانے والا نہیں تو آئندہ سماعت تک ان کو سوچنے کا وقت دیتے ہیں، شروع دن سے کہہ رہا ہوں اور چینلج کرتا ہوں کہ کوئی بتائے کہ میرے ججز کو رابطہ کیا گیا،2018 سے کوئی بتائے کہ کوئی ایسا فیصلہ بتائے جس سے اس بیانیہ کو تقویت ملی ہو، اس موقع پر اٹارنی جنرل نےمیر شکیل کو ویڈیو لنک پر لینے کی استدعاکی جسے عدالت نے مسترد کرتے ہوئے کہاکہ میر شکیل الرحمن چارج فریم کے لیے عدالت آئیں گے،کسی کا فئیر ٹرائل کا حق نہیں سلب نہیں کیا جائے گا.
عدالت نے تمام ملزمان کو سوچنے کا موقع دیتے ہوئے کیس کی سماعت 20 جنوری تک کے لئے ملتوی کردی۔