ثاقب نثار کی آڈیو اصلی ہے یا جعلی: عدالت کمیشن کیوں بنائے؟
Reading Time: 4 minutesاسلام آباد ہائیکورٹ نے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی مبینہ آڈیو کی تحقیقات کے لیے کمیشن بنانے کی درخواست پر سماعت میں سوال کیا ہے کہ اوریجنل آڈیو موجود ہے یا نہیں یہ بھی نہیں معلوم۔
جمعے کو سماعت کے موقع پر چیف جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ آڈیو مصدقہ ہے یا نہیں اس حوالے سے بھی کچھ کہا نہیں جا سکتا۔
چیف جسٹس کے مطابق کوئی احتساب عدالت اس ہائیکورٹ کے ایڈمنسٹریٹو کنٹرول میں نہیں۔ اس ہائیکورٹ سے متعلق ایسی کون سی چیز ہے جس پر آپ انکوائری کا مطالبہ کرتے ہیں۔ یہ تمام معاملات ایک زیرالتواء اپیل سے متعلقہ ہیں۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آڈیو کا فرانزک اور انکوائری چاہتے ہیں مگر اس کا زیر التواء اپیلوں پر بھی اثر ہو گا۔ اگر عدالت انکوائری کا حکم دیتی ہے تو اپیلوں پر کیا اثر پڑے گا۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ایسا لگتا ہے جن کی اپیلیں ہیں وہ یہ معاملات عدالت نہیں لانا چاہتے، اگر یہ عدالت انکوائری کا حکم دیتی ہے تو اس کا تمام زیرالتواء مقدمات پر اثر ہو گا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ الزام لگایا جا رہا ہے کہ اس عدالت کے بینچز کوئی اور بناتا ہے، کوئی ایک معمولی سا بھی ثبوت ہے کہ اس عدالت کا کوئی بینچ کسی اور نے بنایا، سیاسی بیانیوں پر کیسز کے فیصلے نہیں کیے جا سکتے۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے درخواست گزار سندھ ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر صلاح الدین ایڈووکیٹ سے کہا کہ آپ بار کے لیڈر ہیں کوئی معمولی سا بھی ثبوت لے کر آئیں، اس طرح انکوائری تو بینچز میں موجود ججز کی ہونی ہے۔
وکیل نے کہا کہ ایک آڈیو موجود ہے جس میں یہ معلوم نہیں کہ ثاقب نثار کس سے گفتگو کر رہے ہیں، یہ بھی معلوم نہیں کہ کال پر دوسری جانب کوئی جج ہے بھی یا نہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ درخواست گزار کو بادی النظر میں اپنا کیس تو بنانا ہو گا کوئی معمولی ثبوت ہی لے آئیں، اگر ثبوت نہیں تو یہ عوام پر عدالت پر اعتماد ختم کرنے کی کوشش ہے، ثبوت لائیں تو اس عدالت کو کمیشن بنانے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں۔
چیف جسٹس کے مطابق بیانیہ بنایا جا رہا ہے کہ اس عدالت کے بنچز کوئی اور بناتا ہے کوئی ثبوت تو لائیں، اس تمام عرصے میں کسی جج کا کنڈکٹ یا فیصلہ ایسا دکھا دیں جس سے ایسا لگتا ہو، آرڈرز میں تو ریلیف دیا گیا ہے، اس لیے یہ بات نہ کریں۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کل کو زیر التوا کیسز میں مزید پٹیشنز آ جائیں گی کہ یہ آڈیو ہے، اس کی انکوائری کرائیں، ابھی جس فرانزک ایجنسی کی رپورٹ بتا رہے ہیں اس رپورٹ پر انحصار نہیں کیا جا سکتا۔
صلاح الدین ایڈووکیٹ نے کہا کہ اس آڈیو کلپ کی کاپی تمام چینلز کے پاس ہے جنہوں نے یہ آڈیو چلانے کا رسک لیا، چینلز نے اس کو سنجیدہ لے کر توہین عدالت کی کارروائی کے خدشے کے باوجود یہ آڈیو کلپ چلائے۔
صلاح الدین ایڈووکیٹ نے بتایا کہ امریکہ کی فرانزک فرم کی رپورٹ میں آڈیو کو غیر ایڈٹ شدہ قرار دیا گیا۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اس رپورٹ میں یہ نہیں لکھا ہوا کہ یہ کس آڈیو سے متعلق ہے، آپ نے یہ رپورٹ کہاں سے حاصل کی؟
سندھ ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر صلاح الدین ایڈووکیٹ نے بتایا کہ انہوں نے آڈیو انٹرنیٹ سے حاصل کی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اس فرانزک رپورٹ میں نہیں لکھا ہوا کہ خصوصی طور پر اُس آڈیو سے متعلق ہے۔ شاید یہ اسی آڈیو کی رپورٹ ہو لیکن عدالت نے احتیاط سے کام لینا ہے۔ پہلے دیکھنا ہے کہ کیا اس طرح کی کوئی آڈیو اصل میں موجود بھی ہے یا نہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اگر اصل آڈیو موجود ہے تو ہم دنیا کے بہترین ایکسپرٹس سے فرانزک کرائیں گے۔ پاکستان بار کونسل اور اٹارنی جنرل اس عدالت کو بہترین فرانزک ایجنسی کا بتائیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ وقت دیتے ہیں اس پر سوچ کر عدالت کو آگاہ کریں۔ یہ عدالت اس سے بہتر آپشن آپ کو نہیں دے سکتی۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ درخواست زیرالتواء رہے گی، ہم فرانزک کروا لیں گے، اس بات کو سمجھیں کہ عدالت ایک رومنگ انکوائری کا حکم نہیں دے سکتی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت کے پاس اختیارات کے استعمال کیلئے کوئی وجہ موجود ہونی چاہیے۔ اگر اس آڈیو کلپ کا فرانزک کرائیں تو اس کا خرچہ کون برداشت کرے گا؟
صلاح الدین ایڈووکیٹ نے کہا کہ وزارت قانون کو اس کا خرچہ اٹھا سکتی ہے۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ٹیکس دینے والوں کی روم اس پر کیوں خرچ ہو؟
چیف جسٹس نے کہا کہ تاریخ واقعی تلخ ہے، ججز نے ماضی میں چیزوں کو تسلیم کیا، یہاں معاملہ مختلف ہے۔ آپ کسی بھی مستند فرانزک ایجنسی کا نام تجویز کریں جس سے اس آڈیو کلپ کا فرانزک کرایا جائے۔
صلاح الدین ایڈووکیٹ نے کہا کہ اٹارنی جنرل نے ان کو کسی کی پراکسی قرار دیا اس لیے کوئی نام تجویز نہیں کریں گے۔ اس کے لیے اٹارنی جنرل سے ہی کسی مستند فرانزک ایجنسی کا نام معلوم کر لیں۔
صلاح الدین ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ ججز میرٹ پر فیصلے دیتے ہیں، پھر بھی ایک چیف جسٹس کی ان کی کالز کی انکوائری تو ہونی چاہیے۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ”صلاح الدین آپ پاکستان کے بہترین وکلاء میں سے ہیں۔ اس عدالت کو آپ پر اعتماد ہے جو آپ کہیں گے اسے مانیں گے۔“
عدالت نے اٹارنی جنرل کو فرانزک کمپنی کا نام ایک ہفتے میں تجویز کرنے کی ہدایت کی.