کالم

پاکستان نے کتنا قرض واپس کیا، خزانہ کیوں نہیں بھر رہا؟

جنوری 15, 2022 3 min

پاکستان نے کتنا قرض واپس کیا، خزانہ کیوں نہیں بھر رہا؟

Reading Time: 3 minutes

محمد اشفاق . تجزیہ کار
موجودہ مالی سال یعنی 2021-22 میں پاکستان نے مجموعی طور پر 12.3 ارب ڈالرز کے غیر ملکی قرض کی ادائیگی کرنا تھی۔

پہلے چھ ماہ یعنی جون تا دسمبر 2021 میں ہم نے اس نیک مقصد کے حصول کے لیے مزید چھ ارب ڈالرز کا قرض لیا۔ اس میں تین ارب ڈالرز ہمیں سعودیہ سے ملے، دو ارب ڈالرز سے کچھ اوپر رقم آئی ایم ایف نے مہیا کی اور ایک ارب ڈالرز کے یوروبانڈز جاری کئے گئے۔

ان چھ ارب ڈالرز سے ہم نے پہلے چھ ماہ میں 3.78 ارب ڈالرز کا قرض چکایا۔ ریاضی جمع تفریق کے مطابق ہمارے پاس 2.22 ارب ڈالرز بچنا چاہئے تھے۔ لیکن ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر جون 2021 میں 17.8 ارب ڈالرز تھے، جو دسمبر 2021 کے اختتام پر بھی 17.6 ارب ڈالرز پہ کھڑے تھے۔

یعنی یہ گوشت تھا تو بلی کدھر گئی، اور بلی تھی تو گوشت کہاں گیا؟

یہ وہ چھ ماہ ہیں جن میں حکومت کے بقول ایف بی آر نے بھی اپنے ٹارگٹ سے کہیں زیادہ ریوینیو جمع کیا۔ فارن ریمیٹنسز بھی تاریخی سطح پہ رہیں، ایکسپورٹ میں بھی مسلسل اضافہ دیکھنے میں آیا، اس دوران نہ کوئی ایسا میگا پراجیکٹ لانچ ہوا، نہ کوئی ایسا ٹینکوں، طیاروں کا دفاعی معاہدہ ہوا، جس پر ہمیں دو ڈھائی ارب ڈالرز خرچ کرنا پڑتے۔ جبکہ معیشت بقول وزیر خزانہ اتنی تیزی سے دوڑنے لگی تھی کہ اسے دم سے پکڑ کر کھینچ کھینچ کر رفتار کم کی گئی۔

کہنے کا مقصد یہ کہ ہمارے حالات کچھ ایسے ہیں کہ حکومت کے بقول سب ٹھیک چل رہا ہو تو بھی ڈھائی تین ارب ڈالرز کا اس ملک میں پتہ ہی نہیں چلتا کہ آئے تو گئے کدھر۔ اپنے روزمرہ اخراجات کیلئے بھی حکومت قرض لینے پہ مجبور ہے۔

خیر، اب معاملہ یوں ہے کہ اس مالی سال کے بقایا چھ ماہ یعنی جنوری تا جون 2022 میں ہم نے مزید 8.63 ارب ڈالرز کے قرض چکانا ہیں۔ جن کی تفصیل آپ نیچے دیے گئے انفوگرافک میں دیکھ سکتے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ یہ قرض چکانے کیلئے ہمیں جو نو دس ارب ڈالرز درکار ہیں، وہ کہاں سے آئیں گے؟

اب جو ہمارے موجودہ سرکاری زرمبادلہ کے ذخائر ہیں۔ ان میں تین ارب ڈالرز سعودیہ کے اور غالباً اتنے ہی چین کے دیے وہ ہیں جنہیں ہم خرچ نہیں کر سکتے۔ یعنی ہمارا حقیقی زرمبادلہ گیارہ بارہ ارب ڈالر ہے جو ہماری بمشکل دو ماہ کی امپورٹس کو کور کرتا ہے۔ اسے تو ہم چھیڑ نہیں سکتے۔

لینا ہم نے قرض ہی ہے۔ آئی ایم ایف سوا ارب ڈالر شاید فروری میں ریلیز کر دے اور ممکن ہے کہ جون سے پہلے ہمیں ایک ڈیڑھ ارب ڈالر مزید دے دے۔ یعنی ڈھائی ارب ڈالرز کی توقع اس سے رکھی جا سکتی۔ دو ڈھائی ارب ڈالرز کے ہمیں سکوک یا یوروبانڈز جاری کرنا پڑیں گے۔ اس سے زیادہ کے ایک وقت میں ہو نہیں سکتے اور مجھے تو خیر یہ بھی سمجھ نہیں آ رہی کہ اس بار گروی کیا رکھوائیں گے؟ جی ایچ کیو اور پارلیمنٹ؟ کیونکہ باقی سب تو پہلے ہی گروی ہے۔

لیکن اس طرح پانچ ارب ڈالرز ہمیں مل سکتے ہیں بقایا ساڑھے تین ارب ڈالرز اگر ہم اپنے پلے سے دیتے ہیں تو بھی اور چین سعودیہ کی منت ترلا کر کے پکڑ لیتے ہیں تو بھی، ہمارا اگلا مالی سال سر پہ کھڑا ہوگا اور اس میں ہمیں مزید بارہ تیرہ ارب ڈالرز کا قرض چکانا ہے۔

عملاً ہمارا کوئی ایک بڑا قرض خواہ ہم سے یک مشت اپنی رقم مانگ لے تو ہم دیوالیہ ہو جائیں گے۔ شبرزیدی نے غلط نہیں کہا تھا۔

اب ایسے میں نیشنل سکیورٹی پالیسی اور اس میں اکنامک سکیورٹی کا خصوصی تذکرہ "چ چالاکی” کے سوا کچھ بھی نہیں۔ موسٹ لائیکلی ہمیں اگلے مالی سال کے آخر تک یعنی اگلے جنوری سے جون کے درمیان ایک بار پھر آئی ایم ایف سے نیا پروگرام لینا پڑے گا۔ جناب وزیراعظم اشارتاً اس کا ذکر فرما چکے۔ مگر کل کہہ رہے تھے کہ آئی ایم ایف سے قرض لینے سے ہماری خودمختاری متاثر ہوتی ہے۔

کون سی خودمختاری؟

عوام پہ پڑنے والا ہر بوجھ آئی ایم ایف کے کھاتے ڈال کر ہماری حکومتیں معصوم بنتی ہیں۔ آئی ایم ایف زبردستی ہماری جیب میں پیسے نہیں ڈالتا۔ یہی حکومتیں اس کے گوڈے گٹے پکڑ کر اس سے قرض مانگتی ہیں۔

میں تو خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کہ پچھلے تین سال سے ہماری معاشی پالیسیوں کی تشکیل کا کام آئی ایم ایف نے سنبھال رکھا ہے۔ تصور بھی کریں کہ یہ ذمہ داری جناب عمران خان اور ان کی لائق فائق کابینہ کے سپرد ہوتی تو کیا تباہی ہوتی؟

خیر کہنا یہ تھا کہ پیٹ پر پتھر باندھے رکھیں، اس منی بجٹ جیسے کئی تحفے ابھی آپ کو ملنا باقی ہیں۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے