پاکستان متفرق خبریں

ریاست کاجبری گمشدگیوں میں ملوث ہونا حقیقت: اسلام آباد ہائیکورٹ

جون 17, 2022 4 min

ریاست کاجبری گمشدگیوں میں ملوث ہونا حقیقت: اسلام آباد ہائیکورٹ

Reading Time: 4 minutes

پاکستان کی اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہاہے کہ ریاست کا جبری گمشدگیوں میں ملوث ہوناایک حقیقت ہے۔

جمعے کولاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے دائر درخواستوں کی سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ یہ حقیقت ہے کہ ریاست جبری گمشدگیوں میں شامل ہے۔

چیف جسٹس نے ڈپٹی اٹارنی جنرل سے استفسارکیا کہ آج بھی لوگ اٹھائے جا رہے ہیں۔ وفاقی حکومت نے کیا اقدامات کیے اورکون ذمہ دار ہے۔

ڈپٹی اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ سات وزرا پرمشتمل وفاقی کابینہ نے مسنگ پرسنز سے متعلق ایک کمیٹی تشکیل دی ہے جو لاپتہ افراد سے متعلق اپنی سفارشات پیش کرے گی۔

اس پرچیف جسٹس نے کہا کہ اس عدالت کو کمیٹیوں میں نہ ڈالیں۔ آئین کی خلاف ورزی ہورہی ہے۔

عدالت نے ڈپٹی اٹارنی جنرل سے استفسارکیا کہ کیا حکومت نے جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف سمیت سابق چیف ایگزیکٹوز کونوٹس جاری کئے۔ نوٹسسز اوران چیف ایگزیکٹوز کے بیان حلفی کہاں ہیں؟

ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہا کہ اٹارنی جنرل بیرون ملک ہیں کچھ وقت دیا جائے وہ اس پردلائل دیں گے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ یہ سب سے سنجیدہ کیس ہے اورریاست کا یہ کنڈکٹ ہے۔آج وفاقی حکومت نے ثابت کیا ہے کہ اتنے بڑے ایشو کے بارے میں سنجیدہ نہیں۔ حکومت کو ان کیسسز کو سب سے پہلے دیکھنا چاہیئے۔ یہ اچھا لگے گا کہ ہم چیف ایگزیکٹو کو طلب کریں۔آپ یہ ثابت کررہے ہیں کہ جنرل مشرف کے دور سے لیکر اب تک لوگوں کو اٹھانا ریاستی پالیسی ہے۔

چیف جسٹس کا مزید کہنا تھا کہ جس دور میں کوئی لاپتہ ہوا اس کا کوئی تو ذمہ دار ہے۔ آج بھی شکایات مل رہی ہیں کہ لوگوں کو اٹھایا جا رہا ہے۔ عدالتی حکم پر عمل درآمد نا کرنے کی وجہ سے بادی النظر میں حکومت نا کام رہی۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عدالت نے حکم دیا تھا کہ لاپتا افراد کی مشکلات عوام تک پہنچانے کے لیے اقدامات کیے جائیں، انہوں نے استفسار کیا کہ وفاقی حکومت نے پیمرا کو ہدایت جاری کی ہے؟

اس پر عدالت میں موجود نمائندہ وزارت اطلاعات نے جواب دیا کہ ہم نے براہ راست پاکستان براڈکاسٹرز ایسوسی ایشن کو لکھ دیا تھا کہ عدالتی حکم پر عمل کریں۔

چیف جسٹس نے پوچھا کہ اس کے بعد لاپتا افراد سے متعلق کتنے پروگرامز ہوئے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ اس عدالت کے ساتھ گیم نہ کھیلیں، کس چیز کی گھبراہٹ ہے؟

کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم ایڈووکیٹ نے کہا کہ ہم لاپتا افراد کی بات کرتے ہیں، میرے ٹی وی پر آنے پر پابندی لگائی گئی ہے۔

انعام الرحیم ایڈووکیٹ نے کہا کہ پرویز مشرف سے لے کر آج تک لوگوں کو جبری گمشدہ کرنا ریاستی ادارے کی پالیسی ہے، یہ عدالت بھی حکم جاری کرتی ہے لیکن اب بھی لوگوں کو اٹھایا جارہا ہے۔

چیف جسٹس نے انعام الرحیم ایڈووکیٹ سے مکالمہ کیا کہ آپ نے گزشتہ سماعت پر ایک اہم جانب توجہ مبذول کروائی تھی۔

وکیل انعام الرحیم نے جواب دیا کہ ایسے دس کیسز موجود ہیں کہ لوگ لاپتا ہوئے اور بعد میں پتا چلا کہ ان کا ٹرائل چلا کر سزا سنا دی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں بعد میں جیل سے معلوم ہوا کہ ان لوگوں کا ٹرائل کر کے کچھ کو تو سزائے موت سنا دی گئی تھی۔

انہوں نے استدلال کیا کہ فوجی عدالتوں کا آرڈیننس ختم ہو جانے کے بعد بھی ان کو آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت سزا سنائی گئی۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ جن لوگوں کا ٹرائل کیا گیا ان کے اہلخانہ کو بھی اس حوالے سے معلوم نہیں تھا؟

کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم ایڈووکیٹ نے جواب دیا کہ نہیں، ان کی فیملیز کو بھی بعد میں جیل سے معلوم ہوا تھا۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ وفاقی کابینہ نے ایک کمیٹی بنائی ہے، گو کہ نہ ہونے کے برابر ہے لیکن کوئی اقدام تو اٹھایا گیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ عدالت ان جبری گمشدگیوں کا ذمہ دار کس کو ٹھہرائے، یا تو یہ بتا دیں کہ یہاں ریاست کے اندر ریاست ہے۔

عدالت نے استفسار کیا کہ پولیس، آئی بی اور مسلح افواج کی ایجنسیوں پر بھی الزام لگایا جاتا ہے۔

وکیل انعام الرحیم نے کہا کہ عدالت وزیر اعظم کو ذمہ دار ٹھہرائے، انہیں سب معلوم ہوتا ہے۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے سوال کیا کہ یہ جتنے کیسز ہیں ان میں کسی ایک کا بھی بتا دیں کہ اسے کس نے اٹھایا ہے؟

چیئرپرسن ڈی ایچ آر آمنہ مسعود جنجوعہ نے کہا کہ وزیر دفاع کو نوٹس جاری کرنا چاہیے، اس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ وزیر دفاع کس کے ماتحت ہے، یا تو وزیراعظم کہہ دے کہ وہ بے بس ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اگر وزیر اعظم بے بس نہیں ہیں تو آئین انہیں ذمہ دار ٹھہراتا ہے، وزیراعظم کو پھر اس عدالت کے سامنے یہ کہہ دینا چاہیے تاکہ عدالت کسی کے خلاف کارروائی کرے۔

ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت آئندہ سماعت تک وقت دے، اٹارنی جنرل خود عدالت کی معاونت کریں گے۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ نے تو جو اس عدالت کے حکم کے ساتھ کیا اس کے بعد تو کچھ کہنا بنتا ہی نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ریاست ٹریس کر کے رپورٹ دے دے کہ لاپتا افراد کہاں چلے گئے ہیں، اس ملک میں ماورائے عدالت قتل کیے جاتے رہے ہیں اور پولیس وہ قتل کرتی رہی ہے۔

جب ڈپٹی اٹارنی جنرل نے عدالت سے آئندہ سماعت تک وقت مانگا تو اس پر عدالت نے جواب دیا کہ آپ نے تو جو اس عدالت کے حکم کے ساتھ کیا اس کے بعد تو کچھ کہنا بنتا ہی نہیں۔

عدالت نے سرکاری وکیل سے استفسار کیا کہ اس بات سے اختلاف نہیں کہ لوگ خود چلے جاتے ہیں لیکن ریاست کی بھی کوئی ذمہ داری ہوتی ہے،عدالت نے مزید کہا کہ یہ بات بھی درست ہے کہ ریاست جبری گمشدگیوں میں ملوث ہے۔

آمنہ مسعود جنجوعہ نے کہا کہ یہ عدالت، وزیر اعظم کو طلب کرے تاکہ ان پر دباؤ پڑے۔

ایڈووکیٹ انعام الرحیم نے کہا کہ عدالتی حکم پر عملدرآمد نہ کرنے پر وفاقی حکومت کو شوکاز نوٹس جاری کیا جانا چاہیے۔

عدالت نے کہا کہ ڈپٹی اٹارنی جنرل 25 مئی کے عدالتی حکم پر عمل درآمد سے متعلق مطمئن نہیں کر سکے۔

لاپتہ افراد سے متعلق کابینہ کی طرف سے تشکیل کردہ کمیٹی کا نوٹی فکیشن بھی عدالت کے سامنے پیش کیا گیا۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ وفاقی حکومت بادی النظر میں عدالتی حکم پر عملدرآمد کرنے میں ناکام رہی، اس مرحلے پر عدالت پر ظاہر ہوا ہے کہ وفاقی حکومت نے لاپتا افراد کے معاملے کو سنجیدہ نہیں لیا۔

عدالت نے وزارت داخلہ کو 25 مئی کے حکم پرعملدرآمد یقینی بنانے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ اس کیس میں مزید کوئی التوا نہیں دیا جائے گا فریقین آئندہ سماعت تک دلائل دیں۔ کیس کی سماعت تین جولائی تک ملتوی کردی گئی۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے