تم مجھے یوں بھلا نہ پاؤ گے
Reading Time: 3 minutesپتھر کے صنم تجھے ہم نے محبت کا خدا جانا
کھلونا جان کر تم تو میرا دل توڑے جاتے ہو
ساتویں جماعت اختتام کے قریب تھی تو والد صاحب نے ایک کیسٹ پلیئر خریدا – موسیقی کے نیم شیدائیوں کے لیے مارکیٹ میں نیا نیا دستیاب ہوا تھا، کیسٹ کے فیتے کی رفتار ایک چھوٹی سی موٹر اور ایک ربڑ کی بیلٹ کی مرہون منت تھی- تھوڑی سی خرابی کی صورت میں مکیش عرف جنازے والے کی آواز بھی جاوید میانداد جیسی ہو جاتی تھی – لیکن شیطان کی اس دین نے دن دگنی اور رات چگنی ترقی کی- اور دو ہی سال میں اس مشین اور کیسٹ کا گٹھ جوڑ انسانی آواز کے قریب ترین ہو گیا- اور گانوں میں ریڈیو کی کھڑ کھڑ اور شاں شاں کے بغیر ہی مزہ آنے لگا –
انہی دنوں اپنے جسم کے علاوہ دل و دماغ پر بھی بلوغت کے اثرات دکھنے لگے – کہاں والدہ کا کنگھا لے کر پیچھے پیچھے بھاگنا کہ بال تو بنواتے جاؤ اور کہاں شیشے کے سامنے پہروں گزار دینے کہ دنیا کو میں کیسا لگتا ہوں- انہی تین برسوں میں بالوں کے تین سٹائل بدلنا بھی ثابت ہے – ہر وقت چہرے پر ایسے اظہار بنا کر رکھنا کہ شائد اب لوگ مڑ مڑ کر دیکھ لیں – اکثر انسان سیٹی بجانا بھی انہی دنوں میں سیکھتا ہے اور گنگنا کر پھٹے ہوۓ ڈھول کا تمغہ بھی وصول پاتا ہے-
گانے تو ان دنوں میں بہت سارے سنے ہوں گے لیکن تحریر کے شروع میں بیان کردہ دو گانے ہر وقت میری زبان پر رہتے تھے – انگریزی شاید اتنی اچھی نہیں تھی اس لیے بونی ایم کا بھوت جلد ہی سر سے اتر گیا-
انگریزی کی کیسٹ گلوکار کے نام سے ہوتی تھی جبکہ اردو ہندی کی کیسٹ بنانے والے کی صوابدید یا فلموں کے حساب سے چلتی تھی – جب تک یہ دو گانے گنگناتا رہا کبھی نہیں سوچا کہ گانے والا کون ہے-
پھر دسویں جماعت کی چھٹیوں کے عین بیچ یکم اگست کا دن اور صبح صبح اخبار میں خبر کہ ممتاز گلوکار محمد رفیع صرف 56 برس کی عمر میں اکتیس جولائی کو اپنے رب کے پاس چلے گئے –
خبر سے کچھ تاثر نہیں لیا لیکن پھر بھی شاید آج بھی ذہن پر نقش ہے – لیکن اس وقت بھی میں اپنے دل و دماغ پر نقش گانوں کو رفیع صاحب سے جوڑ نہ پایا – پھر زندگی گزرتی گئی اسلام آتا گیا اور موسیقی حرام سے حرام تر ہوتی چلی گئی – کوئی بارہ برس بعد اسلامی سیلاب کا پانی آہستہ آہستہ اترنا شروع ہوا تو وہی ایک باجے والی مشین پر گانا سنا:
تو گنگا کی موج میں جمنا کا دھارا
گانا کوئی دل و دماغ پر ایسا نقش ہوا کہ اس کو آگے پیچھے کوئی پچاس سو مرتبہ سن لیا- اس کے ایک ایک جملے، سر ، لے ، تال پر غور کیا، تو لگا کہ یہاں کوئی سر لے تال کو ادا کرنے کی کوشش نہیں کر رہا بلکہ اس کی نئی قسمیں متعارف کروا رہا ہے- تھوڑی سی تحقیق کی تو پتہ چلا کہ یہ گانا تو میری پیدائش سے بھی پندرہ سال پہلے کا ہے –
بس اسی روز سے میں رفیع کا دیوانہ پروانہ ہو گیا – اور جب اپنے لڑکپن کی زندگی میں جھانک کر دیکھا تو پتہ چلا کہ میری زبان پر چڑھنے والے اکثر گانے رفیع کے تھے – پھر میں نے رفیع کا ہر گانا سننے کے بعد انہیں مس کرنا شروع کر دیا- اور جب بھی سوچتا کہ رفیع اس دنیا میں نہیں تو بہت افسردہ ہو جاتا اور یہیں سے مجھے محسوس ہونا شروع ہو اکہ دنیا فانی ہے ورنہ اس حقیقت پر بہت کچھ سن پڑھ کر اسے محسوس نہ کر سکا-
رفیع کے علاوہ بھی بہت سارے گلوکاروں کو سنا لیکن ہمیشہ رفیع سے موازنہ کر کے رد کر دیا- رفیع کے علاوہ کوئی اتنا سدا بہار نہیں ہو سکتا –
آج کے روز 42 سال پہلے ہم سے بچھڑ گئے لیکن
تو کہیں آس پاس ہے دوست
تم مجھے یوں بھلا نہ پاؤ گے
کھلونا جان کر تم تو میرا دل توڑے جاتے ہو
پتھر کے صنم تجھے ہم نے محبت کا خدا جانا