کالم

تین ملکوں کی سرحد اور کلون کی سیر

اگست 9, 2022 8 min

تین ملکوں کی سرحد اور کلون کی سیر

Reading Time: 8 minutes

اظہر بھائی نے گروپ میں میسج کیا کہ بیلجیئم سے جرمنی کے قریبی شہر کلون کا ایک دن کا ٹرپ پلان کرتے ہیں اور سب اپنے شیڈول دیکھ کر بتا دیں کہ کون کون 17 جولائی کو جا سکتا ہے۔

میں، امیرحمزہ ، شکیل انجم اور علی نواز نے حامی بھری کہ ہم ساتھ ہوں گے۔ میں نے یہ مشورہ بھی دیا کہ کلون کے ساتھ ساتھ ہم بیلجیئم، جرمنی اور نیدرلینڈز کا بارڈر بھی دیکھتے ہیں جو قریب دو گھنٹے کی ڈرائیو پر موجود ہے۔ یہ ان تین ملکوں کا مشہور بارڈر ہے جو جنگل کے بیچ واقع ہے اور اسے خوبصورت پکنک پوائنٹ بنایا گیا ہے۔ اس بات پر اتفاق ہوا اور 16 جولائی کو یونیورسٹی میں بار بی کیو کے دوران ملاقات ہوئی تو اگلے دن کا پلان کیا کہ چونکہ دونوں جگہیں قریب ہے تو ہم آرام سے صبح 12 بجے برسلز سے نکلیں گے۔

اتوار 17 جولائی کی صبح اٹھ کر فریش ہوا اور ضروری چیزیں بیگ میں ڈال کر سیدھا امیرحمزہ کی طرف پہنچا کیونکہ میرا خیال تھا کہ ناشتہ سب اکھٹے امیرحمزہ کے ہاسٹل کریں گے۔ 12 بجے وہاں پہنچا تو امیرحمزہ کو کہا کہ ابھی ناشتہ بھی کرنا ہے لیکن باقی لوگ اب تک نہیں آئے ہیں۔ پتہ چلا کہ وہ سب ناشتہ کر کے آئیں گے صرف میں ہی بغیر ناشتہ کے پہنچا ہوں۔

خیر امیرحمزہ نے میرے لئے گرم گرم پراٹھے بنائے اور جب میں ناشتہ کر کے فارغ ہوا تو علی نواز آئے اور پھر شکیل اور اظہر بھائی بھی پہنچ گئے۔

سامان گاڑی میں رکھا اور پونے ایک بجے برسلز سے روانہ ہوئے۔ پروگرام یہ بنا کہ پہلے تین بارڈرز دیکھنے چلیں گے اور وہاں سے کلون چلے جائیں گے۔ یہ تین بارڈر برسلز سے 145 کلومیٹر دور ہے۔ گوگل میپ نے بتایا کہ ہم ڈھائی بجے وہاں پہنچیں گے۔ ہم برسلز سے نکل کر نیدرلینڈز جانے والے ہائی وے پر چڑھے اور گھنٹہ بعد نیدرلینڈز داخل ہوئے۔ بیلجیئم اور نیدرلینڈز کے لینڈ سکیپ میں بڑا واضح فرق محسوس ہوتا ہے کہ نیدرلینڈز کی خوبصورتی بیلجیئم سے کئی گنا آگے ہے۔

ہم دو بجے جب ہائی وے سے کنٹری سائڈ پر مڑے تو کھیت اور درخت بھی شروع ہو گئے اور کہیں کہیں یہ درخت اتنے گھنے ہو جاتے کہ جنگل کا گمان ہونے لگتا۔ انہی درختوں اور کھیتوں کے بیچ گزرتے ہم ڈھائی بجے اس پوائنٹ کی پارکنگ تک پہنچ گئے۔ گاڑی پارک کر کے باہر نکلے تو قریب ہی ایک ریسٹورنٹ بنا تھا لیکن ہم نے کافی پینے کا پروگرام واپسی تک موخر کیا اور میپ کی مدد سے جنگل کے اندر بنے ٹریک پر بارڈر کی طرف روانہ ہو گئے۔ پارکنگ سے 15 منٹ کی واک پر ہم اس پوئنٹ تک پہنچ گئے جسے دیکھنے کی خواہش پچھلے سال سے دل میں تھی۔

ویسے تو تمام یورپی ممالک کے بیچ بارڈر صرف ایک لکیر ہوتی ہے کیونکہ پڑوسی ممالک سے جنگیں لڑنا اور ان پر فخر کرنا یہ لوگ ایک صدی پہلے کر چکے ہیں اور ان جنگوں میں کافی نقصان اٹھانے کے بعد اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ بس لکیر لگا دینا کافی ہے لیکن یہ والا بارڈر اس حوالے سے دلچسپ ہے کہ یہاں تین ممالک کی سرحدیں آپس میں ملتی ہیں۔ یورپی سرحدوں سے متعلق ایک حقیقی واقعہ بھی سناتا چلوں کہ بیلجیئم اور فرانس کا بارڈر 620 کلومیٹر ہے اور پورے بارڈر پر نہ کوئی چوکی ہے اور نہ اس کے اخراجات۔ پچھلے سال 4 مئی 2021 کو بیلجیئم اور فرانس کے سرحد پر اس وقت دلچسپ صورتحال پیدا ہو گئی جب بارڈر ایریا میں ایک شخص نے واک کرتے ہوئے یہ نوٹ کیا کہ بارڈر کی نشاندہی کے لئے جو پتھر 1819 میں لگایا گیا تھا وہ کسی نے اپنی جگہ سے 7۔8 فٹ فرانس کی طرف دھکیلا ہے۔ مزید تحقیق کی تو پتہ چلا کہ بیلجیئم کے آخری گاؤں کا کسان اپنے کھیت میں ٹریکٹر چلا رہا تھا کہ یہ پتھر بار بار اس کے راستے میں آ کر اسے پریشان کر رہا تھا، تو اس نے ٹریکٹر سے اتر کر پتھر ہٹایا کہ راستہ صاف ہو جائے اور ہل چلانے کے بعد گھر جا کر بڑے آرام سے کافی پینے لگ گیا۔ 7۔8 دن بعد جب پتہ چلا تو اس واقعہ سے تھوڑی سی ہل چل ضرور ہوئی لیکن بارڈر کے دونوں طرف سے مزائلوں پر ٹاکی شاکی مارنے کے بجائے قہقہوں کا طوفان اٹھا کہ کسی شخص نے فرانس کو چھوٹا کر دیا ہے۔ اس واقعہ پر بھی ٹاک شوز ہوئے لیکن بارڈر کے دونوں جانب سے گلہ پھاڑ پھاڑ کر دوسرے کو سبق سکھانے کی بات ہوئی اور نہ ہی کسی ملک کے آرمی چیف کا بیان آیا کہ ہم اپنی دھرتی کا دفاع کرنا جانتے ہیں۔ بلکہ سرحدی علاقے کے دونوں مئیر آن ائیر ہوئے اور بیلجیئم مئیر نے قہقہہ لگا کر کہا کہ مجھے تو خوشی ہوئی ہے کیونکہ میرا علاقہ بڑا ہو گیا ہے۔ آخر میں دونوں ممالک نے اسی کسان کو کہا کہ یہ نشان واپس اپنی جگہ پر رکھ دو، اور یوں دونوں ممالک کے لوگ دوبارہ ہنسی خوشی اپنی زندگیوں میں مصروف ہو گئے۔

ہم بارڈر پوائنٹ پر پہنچے تو کافی سارے سیاح تصویریں بنوا رہے تھے۔ قریب ہی ایک بلند ٹاور بنایا گیا تھا اور پاس پی ایک ریسٹورنٹ یہاں بھی موجود تھا۔ رش تھوڑا کم ہوا تو ہم نے بھی تصویریں بنوائی۔ تینوں ملکوں کے سنگم پر ایک گول چکر بنایا گیا ہے اور کلیروں سے ہر ملک کو الگ الگ دکھایا گیا تھا۔ جس میں آدھا حصہ جرمنی، باقی آدھے میں تقریبا 70 فیصد بیلجیئم اور 30 فیصد پر نیدرلینڈز لکھا ہوا تھا اور تینوں ممالک کے جھنڈے ایک ساتھ نصب کئے گئے تھے۔ اب گول چکر کی مزیدار بات اس پر بنے بینچ تھے جو ایک ملک سے دوسرے ملک تک موو ہو سکتے ہیں کہ اگر کسی بینچ پر بیٹھے بیٹھے آپ کو خیال آئے کہ یہ ملک ٹھیک نہیں ہے تو آپ بینچ کو دھکیل کر پڑوسی ملک میں داخل ہو سکتے ہیں یا تینوں بینچوں کو الگ الگ ملک میں رکھ کر ایک ہی مجلس قائم کر سکتے ہیں۔

تھوڑی دیر ہم وہاں گھومتے رہے اور پھر واپس پارکنگ کی طرف روانہ ہوئے تو قریب ہی اس پورے علاقے کا نقشہ موجود تھا جس پر 12 پکنک مقامات کی نشاندہی کی گئی تھی اور یہ سارے مقامات دیکھنے کے لئے شاید پورا دن چاہئیے ہوگا۔ ہم جنگل سے گزر کر واپس پارکنگ آئے تو ریسٹورنٹ سے کولڈ ڈرنک اور آئس کریم لے کر جرمنی کے شہر کلون کی طرف روانہ ہو گئے۔

ہم پارکنگ سے نکلے تو میپ پر ایک عجیب صورتحال بنی کہ ہم نیدرلینڈز سے جرمنی میں داخل ہوئے اور پھر واپس نیدرلینڈز اور پھر جرمنی میں داخل ہوئے۔ 4۔5 منٹس تک بار بار ملک بدل رہا تھا اور آخر میں کلون شہر کی طرف مڑے تو نیدرلینڈز سے جان چھوٹ گئی۔ وہاں سے ہم کلون پہنچے تو 5 بج رہے تھے اور ہمارے پاس شہر گھومنے کے لئے 5 گھنٹے موجود تھے کیونکہ آج کل گرمیوں میں سورج 10 بجے غروب ہوتا ہے۔ ہم نے سینٹر کی لوکیشن لگائی اور سینٹر پہنچ کر گاڑی ایک گلی میں پارک کر کے کلون کے مشہور چرچ کی طرف روانہ ہو گئے۔ انکل گوگل سے معلومات لی تو پتہ چلا کہ ساری جگہیں قریب قریب ہی ہیں۔

ہم گلی سے نکلے اور نہر کے کنارے درختوں کے سایہ میں واک کرتے کرتے کلون کے چرچ پہنچے۔ یہ چرچ 1248 کے زمانے میں بنایا گیا ہے اور کسی زمانے میں پورے یورپ سے لوگ بڑے شوق سے یہاں عبادت کرنے آتے تھے۔ یہ دنیا کا سب سے بلند دو مینار رکھنے والا چرچ ہے، اور عمومی طور پر تیسرا بلند ترین چرچ ہے۔ چرچ کو دیکھنے پر واقعی اس کی بلندی انسان کو حیران کر دیتی ہے۔ ہم نے چرچ کے صحن میں تصویریں لیں۔ چرچ کے صحن میں ایک بھکاری آرٹسٹ نے گول دائرہ کھینچ کر مختلف ممالک کے جھنڈے فرش پر بنائے تھے اور لوگ اپنے یا ان ملکوں سے محبت کے چکر میں وہاں سکے رکھ رہے تھے۔ لوگوں سے پیسے نکلوانے کا یہ کمال کا آئیڈیا تھا لیکن مجھے یہ پتہ نہ چل سکا کہ حب الوطنی سکے ڈالنے پر کتنا مجبور کر سکتی ہے کیونکہ وہاں پاکستان کا جھنڈا موجود نہیں تھا۔ اب ہمیں گرمی ستانے لگی کیونکہ موسم کافی گرم تھا اور ہمیں ہلکی ہلکی بھوک بھی لگنے لگی تھی۔ تو اظہر بھائی کے مشورہ کے مطابق اٹالین کھانا کھانے سینٹر کی طرف چلے گئے، اظہر بھائی پہلے بھی کلون آ چکے ہیں تو ہمیں سینٹر کے آخر میں ایک بہترین اٹالین ریسٹورنٹ لے گئے۔ ہر ایک نے اپنی پسند کے مطابق آرڈر دیا اور لذیذ کھانا ملنے پر اللہ کا شکر اور شکیل انجم کا شکریہ ادا کیا کیونکہ یہ ڈنر اپنی منگنی کی خوشی میں شکیل انجم کی طرف سے تھا۔

ریسٹورنٹ سے باہر نکل کر واپس چرچ کی طرف گئے کیونکہ وہی سے گزر کر ہم نے مشہور اور پرانا برج کراس کر کے شہر کی دوسری جانب جانے کا سوچا۔ ہم چرچ کے صحن میں پہنچے تو سورج کی تمازت کم ہو چکی تھی اور ہم نے صحن میں تھوڑا وقت مزید گزارا۔ اظہر بھائی نے جب اوپر دیکھا تو کہنے لگے کہ اس چرچ کی بلندی تو بہت زیادہ ہے، میں نے اوپر دیکھ کر تائید کی اور بعد میں پتہ چلا کہ یہ دومینار کا دنیا کا بلند ترین چرچ ہے۔

ہم چرچ سے شہر کے پرانے پل کی طرف گئے، یہ پل 1907 میں بنایا گیا ہے جب اس جگہ موجود صدیوں پرانا پل ٹریفک کا وزن برداشت کرنے سے قاصر ہوا تو اسے توڑ کر 1907 میں یہ پل بنایا گیا ہے تو اب تک چل رہا ہے اور اس پر گاڑیوں کے علاوہ وزنی ریل گاڑیاں بھی بڑے آرام سے گزرتی ہیں۔ اور ہم اس پل کے 100 سال بعد 2007 کے آس پاس جب کراچی میں پل بناتے ہیں تو شیرشاہ کا پل دو تین ٹرک کے وزن سے ٹوٹ کر گر جاتا ہے اور لیاری ایکسپریس وے کے پلوں پر اربوں روپے خرچ کرنے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ یہ پل ہیوی ٹریفک کا وزن برداشت نہیں کر سکتے اور یوں ہیوی ٹریفک ہی کے لئے بنائی گئی ہائی وے کھلنے سے پہلے ناکارہ ہونے کا سرٹیفکیٹ پا لیتی ہے۔ اب ذمہ داری کس پر ہے اور ہمارے ٹیکس کا پیسہ کون کھا اور ایسے منصوبوں میں برباد کر رہا ہے اس بارے میں سب خاموش ہے کیونکہ "بات نکلےگی تو دور تلک جائے گی”۔

پل پر ایک بالکل نئی دنیا ہماری منتظر تھی اور یہ منظر میں زندگی میں پہلی بار دیکھ رہا تھا۔ پل پر ہزاروں تالے بندھے ہوئے تھے اور دیکھنے میں بہت ہی خوبصورت منظر بنا رہا تھا، پل کی جالیوں پر جگہ نہ بچی تو اب ساتھ دریا کی طرف بنی جالیوں پر تالے لگنے شروع ہو چکے تھے۔ ہر سال ہزاروں جوڑے یہاں آ کر اپنے ناموں کا تالا لگاتے ہیں اور پھر چابی دریا میں پھینک دیتے ہیں کہ اس تالے کہ طرح ہماری آپس کی محبت بھی ہمیشہ لاک رہےگی۔۔ وہ الگ بات ہے کہ یہ لوگ ایسا کسی منت یا اعتقاد میں کرنے کے بجائے شغل میلے میں کرتے ہیں اور صرف اپنے پارٹنر کو یہ لاک باور کرا کر اس کے چہرے پر ایک ہلکی سی خوشی دیکھنا چاہتے ہیں کیونکہ چھوٹی چھوٹی خوشیوں سے ہی زندگی خوبصورت بنتی ہے۔ ان تالوں پر ناموں کے علاوہ تاریخیں بھی درج تھیں اور دیکھتے دیکھتے مجھے 1967 کی تاریخ نظر آئی تو دوستوں نے دیکھنے کے بعد کہا کہ یہ تالا اتنا پرانا نہیں لگ رہا تو شاید بعد کے کسی دور میں شادی کی سالگرہ پر لگایا گیا ہوگا۔

برج پر واک کرتے کرتے میں اور اظہر بھائی کافی دوسرے کنارے تک پہنچ گئے لیکن باقی لوگ سب کافی پیچھے تھے تو ہم بھی واپس مڑے اور ان تک پہنچ کر واپسی کا مشورہ کیا کیونکہ دس بجنے والے تھے اور ہم نے واپس برسلز بھی جانا تھا۔ واپس نہر کے کنارے واک کرتے کرتے گاڑی تک پہنچے اور برسلز کے لئے روانہ ہوئے۔

برسلز پہنچ کر میٹھی نیند تو آنی تھی کیونکہ جسم تھکا اور روح سرشار تھی۔ اب میں اگلے سفر پر ہوں۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے