’الفاظ یہ بیان کرنے میں ناکام ہیں کہ میرے ساتھ کیا ہوا‘، منی پور کی طالبہ
Reading Time: 4 minutesانڈیا کی ریاست منی پور میں نسلی فسادات کے دوران گزشتہ اڑھائی ماہ میں 140 افراد کی ہلاکتیں ہوئیں تاہم حکومت کی جانب سے انٹرنیٹ بند کرنے اور صحافیوں کو دور دراز کے متاثرہ علاقے تک رسائی نہ دینے کے باعث متاثرین پر گزرنے والی قیامت سے باقی ملک اور دُنیا بے خبر رہی۔
گزشتہ دنوں انٹرنیٹ کھلا تو دو طالبات کی برہنہ پریڈ اور ہجوم کے ہاتھوں تشدد اور جنسی زیادتی کی ویڈیو نے صرف انڈیا نہیں دُنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔
یہ دونوں لڑکیاں علاقے کی مسیحی کوکی قبائل سے تعلق رکھتی ہیں جنہوں نے حکومتی فیصلے کے خلاف احتجاج شروع کیا تھا۔
منی پور کی ریاست کے اس علاقے میں مسیحی کوکی قبائل اور ہندو میتی قبائل کے درمیان زمین کی ملکیت کا ایک تنازع ہے۔
ہندو میتی کمیونٹی چاہتی ہے کہ پہاڑی علاقے میں جہاں مسیحی کوکی اور دیگر قبائل آباد ہیں اُن کو زمین خریدنے اور سرکاری سرپرستی میں نوکریوں میں ترجیح دی جائے۔
اس مطالبے کے خلاف مسیحی کوکیوں نے احتجاج کیا اور حکومت کو کسی بھی ایسے اقدام سے باز رہنے کے لیے کہا جن سے اُن کی شناخت معدوم ہو اور وہ اپنے علاقے میں اقلیت بن جائیں۔
کوکیوں کے احتجاج کے جواب میں میتی ہندوؤں نے بھی شدت سے مظاہرے کیے اور اس دوران بلوائیوں نے طالبات کے کالج پر حملہ کیا۔
برہنہ پریڈ کی ویڈیو میں ایک متاثرہ 19 سالہ لڑکی نے خود اس حملے کی تفصیلات انگریزی اخبار ’دی ٹیلی گراف‘ کو بتائی ہیں۔
ریپ ہونے والی طالبہ کے مطابق وہ منی پور کے ایک ہیلتھ کیئر انسٹی ٹیوٹ کی طالبہ ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ میتی کمیونٹی کے لوگوں کے ایک ہجوم نے چار مئی کو ان پر حملہ کیا تھا۔
لڑکی نے ٹیلی گراف کو بتایا کہ وزیراعلیٰ این بیرن سنگھ نے جمعرات کو کہا کہ ہمارے معاشرے میں ایسے گھناؤنے جرائم کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔
لڑکی نے کہا کہ ’مجھے نہیں معلوم کہ وہ اب یہ سب کیوں کہہ رہے ہیں۔ کیا یہ سب وائرل ویڈیو دیکھ کر کہہ رہے ہیں؟‘
طالبہ نے کہا کہ ’وزیراعلیٰ اس طرح کی مزید کتنی ویڈیوز کا انتظار کریں گے کہ وہ یقین کریں کہ خواتین پر صرف اس لیے حملہ کیا جا رہا ہے کہ وہ ایک نسلی گروہ سے تعلق رکھتی ہیں۔’
واقعے کی جو ایف آئی آر درج کی گئی ہے اس میں انھوں نے بتایا ہے کہ کس طرح 150 مسلح مردوں اور خواتین نے 4 مئی کی شام میرے انسٹی ٹیوٹ پر حملہ کیا اور انھیں نشانہ بنایا۔
لڑکی نے اخبار کو بتایا: ‘میں نے پہلے صفر ایف آئی آر درج کرائی تھی۔‘ (یہ ایف آئی آر کسی بھی تھانے میں درج کی جا سکتی ہے، خواہ یہ واقعہ اس تھانے کے علاقے میں پیش آیا ہو یا نہیں۔)
انھوں نے دہلی کے اتم نگر پولیس سٹیشن میں ایف آئی آر درج کرائی کیونکہ انھیں منی پور میں طبی امداد کے بعد مزید علاج کے لیے دہلی کے ایمس لایا گیا تھا۔
انھوں نے بتایا کہ وہ پھر منی پور واپس پہنچیں اور 30 مئی کو چوراچند پور پولیس سٹیشن میں ایک اور صفر ایف آئی آر درج کرائی۔
19 سالہ طالبہ نے بتایا کہ یہ ایف آئی آر اس تھانے میں بھیجی گئی جس کے دائرہ اختیار میں ان کا انسٹیٹیوٹ آتا تھا۔
طالبہ نے کہا کہ ‘میں کئی دنوں تک ہسپتال میں پڑی رہی لیکن کسی نے میرا بیان ریکارڈ کرنے کے لیے مجھ سے رابطہ نہیں کیا۔ جب کہ یہ ہسپتال امپھال کے تھانے سے محض چند میٹر کے فاصلے پر تھا۔‘
لڑکی نے بتای کہ ’میرے ساتھ چار مئی کو جو ہوا اس کا داغ، درد اور بوجھ اب بھی اٹھائے ہوئے ہوں۔‘
انھوں نے کہا کہ حملہ آور ان کے انسٹی ٹیوٹ میں گھس آئے تھے اور کوکی طلبہ کے شناختی کارڈ چیک کر کے انھیں نشانہ بنا رہے تھے۔ ہاسٹل میں 90 طالب علم تھے۔
انھوں نے کہا کہ وہاں ہم دس لڑکیاں تھیں۔ دو کو پولیس نے بچا لیا اور چھ کسی طرح فرار ہونے میں کامیاب ہو گئیں۔
لڑکی نے کہا کہ ’مجھے اور میری دوست کو پہچان لیا گیا اور پکڑ لیا۔ ہمیں آرام بائی ٹینگول اور میتی لیپن (انتہا پسند میتی نوجوانوں کا گروپ) کے نوجوانوں اور خواتین نے پکڑا تھا۔‘
لڑکی نے کہا کہ ’آدھے گھنٹے سے زیادہ یہ لوگ ہمیں فٹبال کی طرح لات مارتے رہے۔ لوگ ٹولیوں میں ہم پر کود رہے تھے۔ میرے الفاظ اب یہ بیان کرنے میں ناکام ہیں کہ میرے ساتھ کیا ہوا۔‘
’میں ان خواتین کی آوازوں کو کبھی نہیں بھول سکتی جو ہم پر حملے کے وقت خوشی سے چیخ رہی تھیں۔ وہ ان نوجوانوں کو ہمیں مارنے کے لیے اکسا رہی تھیں۔‘
‘بے ہوش ہونے سے پہلے، میں سن سکتی تھی کہ میں زندہ ہوں یا نہیں۔ وہ شاید مجھے مردہ سمجھ کر چلے گئے تھے۔‘
‘جب مجھے ہوش آیا تو مجھے جواہر لال نہرو انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز، امپھال کے آئی سی یو میں داخل کروا دیا گیا تھا۔ مجھے بتایا گیا کہ پولیس والوں نے مجھے اٹھا کر وہاں داخل کروایا ہے۔‘
طالبہ نے بتایا کہ ‘میرے کچھ دوست اور خاندان والے مجھے دہلی کے ایمس لے گئے اور مجھے وہاں داخل کروایا گیا۔‘
انھوں نے اخبار کو بتایا کہ صحت کی دیکھ بھال کے شعبے میں کیریئر بنانے کا میرا خواب چکنا چور ہو گیا ہے۔
طالبہ نے کہا کہ ’اگر آپ چورا چند پور جائیں تو آپ کو سینکڑوں خواتین ملیں گی جن کے ساتھ ایسا ہوا ہے۔ انھیں نشانہ بنانے کے لیے تین مئی سے منصوبہ بندی شروع کر دی گئی تھی۔‘
’ہم اب بھی سن رہے ہیں کہ یہ حملے ہو رہے ہیں مگر ان میں کچھ کمی آئی ہے۔‘
دی ہندو اخبار نے مزید پرتشدد واقعات پر ایک رپورٹ شائع کی ہے جس میں ایک 45 سالہ خاتون کے زندہ جلانے کے واقعات کا ذکر ہے۔
صبا خان نامی ایک صارف نے دو ویڈیوز ڈالتے ہوئے لکھا کہ ‘انٹرنیٹ کی بحالی کے بعد منی پور سے خوفناک ویڈیوز سامنے آ رہی ہیں۔ پہلی میتی شدت پسند منی پور یونیورسٹی میں داخل ہوئے اور وہ کوکی طالب علموں کو ان کے شناختی کارڈ دیکھ کر نشانہ بنا رہے ہیں۔ دوسرے میں خوفزدہ کوکی لڑکیان ویڈیو ریکارڈ کر رہی ہیں جبکہ شدت پسند ان کا شکار کر رہے ہیں اور انھیں ہاسٹل میں ریپ کر رہے ہیں۔’
منی پور پولیس نے وائرل ویڈیو کے تعلق سے چار افراد کو گرفتار کیا ہے۔ منی پو پولیس نے بتایا کہ وائرل ویڈیو کیس میں تین مزید ملزمان گرفتار ہوئے ہیں اس طرح اب گرفتار ہونے والوں کی تعداد چار ہو گئی ہے۔
منٹ اخبار کے مطابق پولیس نے کہا کہ وہ تمام ملزمان کو گرفتار کرنے کی پوری کوشش کر رہی ہے اور اس کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔