بندیال چلے گئے، ’ہم خیال‘ ججوں کے بینچ بنانے کے ’بے انصافی‘ دور کا اختتام
Reading Time: 2 minutesچیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ملک کے 28 ویں چیف جسٹس کے طور پر سنیچر کو اپنے جج ہونے کا چغہ اتار دیا۔ اُن کی عمر 65 برس ہو گئی تھی اور اس طرح اب وہ تاریخ کا حصہ بن گئے۔
عمر عطا بندیال کا تعلق پنجاب سے ہے مگر اُن کے دور میں بھی سندھ کے ’گلزار‘ اور لاہور کے ’ثاقب‘ کے دوست ججز ’ہم خیال‘ گروپ کو آگے بڑھاتے رہے۔
ریٹائرڈ ہونے والے چیف جسٹس کے دور میں ملک میں سویلین بالادستی کے مقابلے میں ’تین رُکنی بینچ‘ ڈٹا رہا اور پارلیمان کے بنائے گئے قوانین کو ’ہم خیال‘ ججز نے آئین کی اپنی مرضی کی تشریح سے کالعدم قرار دیا۔
ثاقب نثار سے شروع ہونے والا سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کی من مرضی کا دور گلزار احمد کے عہد میں بھی تھا مگر عمر عطا بندیال اِس کو بام عروج پر لے گئے۔
پنجاب میں پرویز الٰہی کو وزیراعلٰی بنانے کے لیے جس طرح آئین کو ازسر نو لکھا گیا وہ عدالتی فیصلہ کسی غیرجانبدار قانون دان کو ’منہ‘ دکھانے کے قابل نہیں ہے مگر ’تین رُکنی بینچ‘ اُس پر ڈٹا رہا۔
ریٹائرمنٹ سے ایک دن قبل نیب قانون میں کی گئیں ترامیم کو کالعدم قرار دینے کے فیصلے کو تو ساتھی جج منصور علی شاہ نے جس طرح ’آئینہ‘ دکھایا وہ پڑھنے کے لائق اور شرم سے ڈوب مرنے کے لیے کافی ہوتا مگر اُس منصف کے لیے جو آئین و قانون کی بالادستی پر یقین رکھتا ہو نہ کہ اپنے ’دھڑے‘ کے ساتھ کھڑا ہو۔
جنوری 2017 سے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ گٹھ جوڑ میں میاں ثاقب نثار اور عمر عطا بندیال دونوں نے سابق وزیراعظم عمران خان کو ’صادق اور امین‘ قرار دیا تھا۔
اس سے قبل آصف سعید کھوسہ اور گلزار احمد نے پانامہ کیس میں مسلم لیگ ن کے سربراہ نواز شریف کو نااہل قرار دیا تھا۔
آصف کھوسہ کو چھوڑ کر، باقی تین چیف جسٹس بنیادی طور پر ہم خیال ججوں کے ساتھ اعلیٰ عدلیہ کے معاملات چلاتے تھے، جن میں سے اکثر ریٹائر ہو چکے ہیں جبکہ دیگر تاحال بینچوں میں بیٹھتے ہیں۔
اب چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کا امتحان شروع ہو رہا ہے۔ کیا وہ اپنے خطوط میں لکھے گئے الفاظ کو اعمال میں ڈھال پائیں گے۔؟