یوٹیوب کے تھمبنیل عجیب، سخت ترین تنقید کی بھی اجازت: سپریم کورٹ
Reading Time: 2 minutesپاکستان کی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ اظہار رائے کی آزادی ہے، ان پر یا عدالتی فیصلوں پر تنقید کرنے والے صحافیوں کو وفاقی تحقیقاتی ایجنسی کے نوٹس کے معاملے کو دیکھیں گے۔
پیر کو صحافیوں کی جانب سے تین برس قبل دائر کی گئی ایک درخواست کی سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ ’ہم صحافیوں کو بھی حقوق دلائیں گے اور ان لوگوں کے حقوق کا بھی تحفظ کریں گے جو ہمارے سامنے نہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ تنقید سے ہی اصلاح ہو گی۔ ’سخت ترین تنقید کو بھی برداشت کیا جائے گا۔‘
صحافی مطیع اللہ جان چیف جسٹس کے بلانے پر سپریم کورٹ کے تین رُکنی بینچ کے سامنے روسٹرم پر آئے اور کہا کہ اگر ہتکِ عزت کے قوانین پر عمل نہیں ہو رہا تو اس میں صحافیوں یا میڈیا کا کوئی قصور نہیں.
اپنے یوٹیوب چینل کے لیے رپورٹنگ کرنے والے اسد طور نے روسٹرم پر آ کر کہا کہ وہ اس درخواست کے دستخطکنندہ تھے مگر اب واپس لینا چایتے ہیں.
ان کا کہنا تھا کہ اُس وقت کوئی اور کہانی تھی جب مجھ سے عدالت میں دائر کی گئی درخواست پر دستخط ہو گیا تھا، اب واپس لینا چاہتا ہوں.
چیف جسٹس نے کہا کہ اسد طور صاحب! آپ کی مرضی نہیں ہے کہ ٹہلتے ہوئے آئیں اور کہیں کہ اپنی درخواست واپس لے رہا ہوں.
اسد طور نے بتایا کہ جس وقت یہ درخواست دائر کی گئی تو میرا تاثر تھا کہ (میرے مینٹور) صحافی مطیع اللہ جان کے بھی اس پر دستخط ہیں مگر بعد میں معلوم ہوا کہ انہوں نے نہیں کیے (وہ اس سے متفق نہیں تھے)
جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ اسد طور نے لفظ استعمال کیا کہ ’میں ٹریپ ہو گیا تھا‘، جاننا چاہتے ہیں کہ وہ کیسے ٹریپ ہو گئے تھے.
چیف جسٹس نے روسٹرم پر کھڑے صحافیوں سے کہا کہ اگر آپ برا نہ مانیں تو میں بھی صحافیوں پر تھوڑی سی تنقید کر لوں.
جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ میری طرف سے برا بھی مان لیں.
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ’کسی کی بھی بے عزتی کریں گے تو اس کے بھی بنیادی حقوق ہیں۔ دونوں میں توازن ہونا ہے۔‘
چیف جسٹس نے کہا کہ یہ صحافی کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ اس سے خبر غلط لگ گئی تھی، اگر کوئی نہ بھی کرے تو بھی یہ صرف اخلاقی ذمہ داری کی حد تک ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ فیئر تنقید ضرور ہونا چاہیے اور اب چیف جسٹس نے جائز تنقید کو بھی ہٹا دیا اور اس کو تنقید تک پھیلا دیا ہے۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان نے کہا کہ وہ حکومت کی جانب سے یقین دہانی کراتے ہیں کہ کسی صحافی کے خلاف تنقید پر کوئی کارروائی نہیں ہوگی۔
جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ ’اس سے ہمارے ملک کی عزت ختم ہو گئی ہے، سوشل میڈیا نے اداروں کو بہت نقصان پہنچایا ہے، قانون کی بھی کوئی حیثیت ہوتی ہے مگر یہاں صرف رائے دی جا رہی ہے قانون کو نہیں دیکھا جاتا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ تنقید ضرور کریں مگر تضحیک تو پورے ملک کی بدنامی کا باعث بنتی ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے یوٹیوب کی ویڈیوز کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ’تھمبنیل پر جو کچھ ہوتا ہے وہ اندر نہیں ہوتا، یہ بہت عجیب ہے۔‘
چیف جسٹس نے کہا کہ ’صحافی اپنی گزارشات تحریری شکل میں دے دیں۔‘