گنڈاپور نے ماہرین سے وفاق کے ذمے صوبائی واجبات کی وصولی کا پلان مانگ لیا
Reading Time: 2 minutesوزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کے دفتر سے جاری کیے گئے بیان کے مطابق علی امین خان گنڈاپور کی زیر صدارت وفاق سے جڑے صوبے کے مالی معاملات سے متعلق اہم اجلاس منعقد کیا گیا۔
منگل کو منعقدہ اجلاس میں متعلقہ حکام کی جانب سے وزیراعلیٰ کو وفاق کے ذمے صوبے کے واجبات اور دیگر مالی امور پر تفصیلی بریفنگ دی گئی۔
وزیر اعلیٰ نے متعلقہ حکام کو یہ معاملات وفاقی حکومت کے ساتھ اٹھانے کے لئے لائحہ عمل ترتیب دینے کی ہدایت کی۔
وزیراعلی نے ہدایت کی کہ ایک مہینے کے اندر اس سلسلے میں ہوم ورک مکمل کر کے پلان آف ایکشن مرتب کیا جائے۔
علی امین گنڈاپور نے ہدایت کی کہ وفاق سے جڑے صوبے کے مالی معاملات کا کیس مؤثر انداز میں پیش کرنے کے لیے تمام متعلقہ دستاویزات تیار رکھی جائیں۔
وزیراعلی خیبر پختونخوا نے کہا کہ صوبے کے واجبات اور آئینی حقوق کے لیے تمام دستیاب فورمز پر بھر پور آواز اٹھائی جائے گی۔
انہوں نے ہدایت کی کہ وفاقی حکومت کے ساتھ معاملہ موثر انداز میں اٹھانے کے لئے ماہرین کی خدمات حاصل کی جائیں۔
علی امین گنڈاپور نے کہا کہ وفاق سے شنوائی نہ ہونے کی صورت میں عدالتوں کا دروازہ بھی کھٹکھٹایا جائے گا۔
بریفنگ میں حکام نے امین گنڈاپور کو بتایا کہ اے جی این قاضی فارمولہ کے تحت پن بجلی کے خالص منافع جات کی مد میں وفاق کے ذمے 1510 ارب روپے واجب الادا ہیں، جبکہ نیشنل گرڈ کو بیچی جانے والی صوبائی حکومت کی بجلی کی مد میں چھ ارب روپے بقایا جات ہیں۔
بریفنگ کے مطابق سابقہ قبائلی اضلاع کا صوبے کے ساتھ انتظامی انضمام ہوگیا ہے مگر مالی انضمام نہیں ہوا، سابقہ قبائلی اضلاع کے انضمام سے صوبے کی آبادی میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔
بریفنگ میں بتایا گیا کہ صوبے کی موجودہ آبادی کے تناسب سے این ایف سی میں صوبے کا شیئر 19.64 فیصد بنتا ہے، جبکہ صوبے کو اس وقت این ایف سی کا صرف 14.16 فیصد شیئر ملتا ہے۔
بریفنگ کے مطابق صوبے کی موجودہ آبادی کے حساب سے صوبے کو این ایف سی میں سالانہ 262 ارب روپے ملنے چاہئیں۔
بریفنگ میں بتایا گیا کہ ضم اضلاع کے دس سالہ ترقیاتی پلان کے تحت صوبے کو 500 ارب روپے کے مقابلے میں اب تک صرف 103 ارب روپے ملے ہیں۔