سیکس ورکر اور طوائف میں فرق کیا؟
Reading Time: 3 minutesکسی نے پوچھا کہ سیکس ورکر اور طوائف میں فرق کیا ہے بہت سوچا اور اپنے تئیں کچھ فرق کرنے کی کوشش کی.
بظاہر یا زبان زدِ عام کوئی بھی فرق نہیں۔ جیسے بظاہر مزدوری اور مشاہرہ میں بھی کوئی فرق نہیں۔
صرف جرمن زبان میں 138 الفاظ سے ایک ایسے انسان کی عزت افزائی کی جاتی ہے، جن میں سے 25 بہت کثرت سے استعمال ہوتے ہیں۔ خیر اب میں سوال کی باریکی میں جانے کی اپنے تئیں کوشش کرتا ہوں۔ سیکس ورکر کو میں ایک مزدور کو سمجھتا ہوں جس سے زماں و مکاں کے حساب سے ایک خاص طرح کی خدمت یا مزدوری کا معاوضہ طے کر لیا جاتا ہے۔ جو کام ہو جانے کے سے پہلے یا فوری بعد ادا کر دیا جاتا ہے۔ اگر خدمت لینے والے کو خدمت کبھی زیادہ اچھی لگے تو معاوضے کو فی زمانہ مناسب ٹِپ سے کچھ بڑھاوا دے دیا جاتا ہے۔
ویسے تو جسمانی تعلق فزیوتھراپی، مالش، مساج وغیرہ میں بھی ہوتا ہے لیکن ان کی حدود سیکس ورکنگ سے بہت کم اور دنیا کے مسلسل تبدیل ہوتے مورلز کی انتہا کو نہیں پہنچتے۔ مورل کے اعتبار سے اس کو برا اس لیے خیال کیا جاتا ہے کہ اس سے فریقین بالخصوص مزدور یا ورکر پر طویل مدتی گہرے نفسیاتی یا جسمانی برے اثرات آنے کے امکانات بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ اسی وجہ سے دنیا کے تمام جدید معاشروں میں اس کی اجازت کے باوجود لوگوں کو اس سے باہر نکلنے کی ترغیب دی جاتی ہے اور ریہیبیلیٹیشن کے پروگراموں پر ٹیکس کے پیسوں سے کام کیا جاتا ہے۔
طوائف اس سے برعکس شاید ایک طویل مدتی توقع کا نام ہے۔ اس میں توقع ہر اس چیز کی کی جاتی ہے جو دوسرے فریق کے پاس ہوتی ہے۔ پہلے سے شاید کچھ بھی طے نہیں ہوتا۔ صرف ایک خاندان کو وجود میں لانا اس میں شامل نہیں ہوتا۔ کوئی باقاعدہ زبانی یا تحریری معاہدہ نہیں ہوتا۔ ایک دوسرے سے اچھی نیت کی توقع کی جاتی ہے۔ اس میں دوسرے فریق سے اس کی اچھی کمپنی، دکھ سکھ کی بٹائی، جسمانی، ذہنی اور نفسیاتی ضروریات کی آسودگی وغیرہ وغیرہ سب کی توقع ممکن ہے۔ ان میں سے مالی یا جذباتی توقعات کو نکال دیا جائے تو اس کو زمانہ جدید میں برابری کی دوستی بھی کہا جاتا ہے۔
شاید طوائف، دوستی اور خاندان کی بنیاد تھوڑے تھوڑے فرق سے مختلف محرکات اور مظاہر ہیں۔ ان میں سے سب سے پکا بانڈ زمانہ قدیم سے آج تک ایک خاندان کی بنیاد ہی ہے۔ لیکن جب ایک فریق یا انسان کو لگے کہ اس کو جن توقعات سے آراستہ کیا گیا تھا وہ دور دور تک امکان و گمان میں بھی نہیں بلکہ اس کو دوست یا طوائف سمجھا گیا ہے اور اس کی خدمات کو فار گرانٹڈ لیا گیا ہے تو وہ تو تڑپے گا۔ ایک حد تک اپنی ذات میں، اگلی حد میں اپنے قریبی دوستوں اور جاننے والوں میں اور آخری حد میں عوام میں بدلہ یا آگاہی پھیلانے کی غرض سے ہی۔
اب برائے مہربانی یہ مت بتانے کی کوشش کریں کہ یہ باتیں چوراہے میں اشتہار لگانے کی نہیں بلکہ چند لوگوں میں بیٹھ کر سلجھانے یا موو آن کرنے کی ہیں۔ مائی فیوڈل لارڈ اور ریحام خان کی کتاب کو ایک طرف رکھ دیتے ہیں۔ ہمت کریں اور وہ حدیثیں اپنے بالغ بچوں میں پڑھ کر سنا دیں کہ جن کو علماء آئے روز سورہ طلاق کی وجہ بتا رہے ہوتے ہیں۔ حدیث والا وہ واقع انہی الفاظ میں بلکہ لفظ بلفظ دربار نبوی میں ہی پیش آیا تھا جو دس راویوں سے ہوتا ہوا صحیح بخاری کی زینت بنا۔ ایسی صحیح و پختہ احادیث کی تعداد دسیوں میں ہے۔
اس کے بعد بھی ایسے بہت سے واقعات خلافت راشدہ کی عوامی قاضی عدالتوں کے ہیں کہ جہاں عورتوں کو اپنے ان معاملات کو دو چار افراد میں حل کرنے کا نہیں بلکہ عوام کی عدالت ببانگ دہل بتانے پر بھی سرزنش نہیں کی گئی۔
لونڈی، اشرافیہ کو تہذیب سکھانے والی طوائف، اور امراء کے بچوں کو پالنے والی میڈ کے پیشے دنیا میں ختم ہو چکے ہیں یا معدوم ہوتے جا رہے ہیں۔ ان کی اعلیٰ کردار اور دوسری طرف حقیقت پسندانہ تجزیوں سے دنیا کے لٹریچر بھرے پڑے ہیں۔
علامہ اقبال کے میڈ آنٹی ڈورِس تو اقبال کے فوت ہونے کے کوئی بیس سال بعد جرمنی واپس پدھاری۔ اور ان کا آخری قیام بھی ہیرا منڈی میں پالنہاروں کی حویلی بارود خانہ میں ہی تھا۔ بے نظیر صاحبہ بھی اپنے بچوں کی پرورش اور رکھ رکھاؤ کی تہذیب سکھانے کے لئے میڈ فلپائن وغیرہ سے ہی تو لائیں تھی۔ یہ تو بلکہ اور بھی ماضی قریب ہے۔ لیکن پھر بھی اب یہ پیشے یا غیر قانونی ہو چکے ہیں یا معدوم ہوتے چلے جا رہے ہیں۔
یورپ میں "Au-Pair” آج بھی ایک محدود وقتی پیشہ ہے جس پر بہت سخت قانونی شقیں لاگو ہوتی ہیں۔