پاکستان

پارا چنار کے واقعات پر ایران کا بیان، پاکستان کا مؤقف نرم رہا

اگست 2, 2024 2 min

پارا چنار کے واقعات پر ایران کا بیان، پاکستان کا مؤقف نرم رہا

Reading Time: 2 minutes

پاکستان نے پاراچنار میں دو قبائل کے درمیان تصادم کے واقعے پر ایران کے مذمتی بیان کو مسترد کرتے ہوئے اسے’غیر ضروری‘ قرار دیا ہے۔

پاکستانی دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرا بلوچ نے جمعرات کو ہفتہ وار نیوز بریفنگ میں بتایا کہ ’ایران کا بیان پاراچنار کی مکمل صورت حال کا احاطہ نہیں کرتا۔‘

پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع کُرم کے قصبے پاراچنار میں دو قبائل کے درمیان لڑائی کے نتیجے میں اب تک 42 افراد ہلاک جبکہ 190 زخمی ہوچکے ہیں۔

ترجمان دفتر خارجہ ممتاز زہرا بلوچ نے مزید کہا کہ کسی بھی انسان کا قتل ناقابلِ برداشت ہے، پاکستان اپنے شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کا ذمہ دار ہے۔ وزارت داخلہ اس حوالے سے کام کر رہی ہے۔‘

دفتر خارجہ کی ترجمان کا کہنا تھا کہ پاکستان ایک کثیر الثقافتی اور کثیر المذاہب معاشرے کے طور پر اپنے تمام شہریوں کی زندگی، وقار اور خوش حالی کو اہمیت دیتا ہے۔

انہوں نے اس حوالے سے مزید کہا کہ ’پاکستان سماجی ہم آہنگی، رواداری اور باہمی احترام کو فروغ دینے کے لیے پُرعزم ہے۔‘

اس سے قبل بدھ کو ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان ناصر کنعانی نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ وہ پاراچنار میں ’دہشت گرد حملے‘ کی مذمت کرتے ہیں۔
انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ’اس حملے میں پاکستان کے اہل تشیع کو ہدف بنایا گیا ہے۔‘

ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان نے زور دیا تھا کہ پاراچنار کے لوگوں کے تحفظ کے لیے عسکریت پسند گروپوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کی جائے۔

واضح رہے کہ افغان سرحد کے قریب واقع ضلع کرم میں ماضی میں بھی مذہبی گروپوں اور قبائل میں جھگڑے اور تصادم کے واقعات ہوتے رہے ہیں۔

پاراچنار میں جائیداد کے تنازع پر حالیہ لڑائی گذشتہ ہفتے شروع ہوئی جو تیزی سے اردگرد کے دیہات تک پھیل گئی، تاہم دونوں متحارب قبائل اتوار کو جنگ بندی پر رضامند ہوگئے۔

ضلعی پولیس افسر (ڈی پی او) نثار احمد خان نے بتایا تھا کہ ’حکام نے قبائلی عمائدین کی مدد سے دونوں قبیلوں کے درمیان جنگ بندی کرا دی ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’پولیس اب دونوں متحارب قبیلوں کے بنکروں اور خندقوں کو خالی کرانے اور ان کا کنٹرول سنبھالنے میں مصروف ہے۔‘

سنہ 2007 میں شروع ہونے والی لڑائی کئی سال جاری رہی جس کا تصفیہ 2011 میں قبائلی جرگے کے ذریعے کیا گیا۔
گذشتہ برس بھی کرم کے دو گروہوں کے درمیان زمین کا تنازع شدت اختیار کرگیا تھا اور لڑائی میں دونوں جانب سے کئی افراد کی جان چلی گئی۔

اس وقت محکمہ داخلہ خیبر پختونخوا نے ’صورت حال کو معمول پر لانے اور مزید نقصانات سے بچنے کے لیے سکیورٹی فورسز کی تعیناتی کے ساتھ متنازع زمین پر دفعہ 144 نافذ کردی۔‘

اس کے ساتھ ہی حالات کو معمول پر لانے کے لیے خیبر پختونخوا کی حکومت نے آئین کے آرٹیکل 245 کے تحت سول پاور کی مدد کے لیے فوج اور ایف سی کی اضافی نفری بھی طلب کی۔

کرم کی ضلعی انتظامیہ کے مطابق دو گروہوں کے درمیان آٹھ مختلف زمینی تنازعات چل رہے ہیں جن میں سے بیشتر تقسیمِ ہند سے قبل کے ہیں۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے