کالم

آئینی ترمیم کا 12 اکتوبر یا 25 اکتوبر کا 14 اگست

ستمبر 13, 2024 2 min

آئینی ترمیم کا 12 اکتوبر یا 25 اکتوبر کا 14 اگست

Reading Time: 2 minutes

‏کیا مجوزہ آئینی ترمیم یا اس کا اطلاق ۲۵ اکتوبر کے بعد نہیں ہو سکتا؟
‏اگر نہیں تو واضح طور پر یہ حکومت کی بدنیتی ہے اور مقصد صرف اور صرف جسٹس منصور علی شاہ کو تین سال تک چیف جسٹس بننے سے روکنا ہے-

‏مخصوص نشستوں متعلق تفصیلی فیصلے کا خوف اتنا زیادہ ہے کہ حکومت آئینی ترمیم پر بحث کو جسٹس منصور کو بلیک میل کرنے کے لیے استعمال کر رہی ہے۔ اِس تفصیلی فیصلے سے فارم ۴۵ کی حکومت تاش کے پتوں کی مانند بکھر سکتی ہے، الیکشن کمیشن کے خلاف مسکنڈکٹ کی کاروائی ہو سکتی ہے اور اسٹیبلشمنٹ بند گلی میں دھکیل دی جائے گی۔

اِس تفصیلی فیصلے پر عمل درآمد کو روکنے کے لیے فل کورٹ میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کے ووٹوں کی تعداد میں اضافہ کیا جا رہا ہے، مستقبل میں فل کورٹ کی اقلیت کو اکثریت میں بدلنے کے لیے بھی قانونی طور پراِن ججوں کی تعداد میں اضافہ کیا جا رہا ہے تاکہ آئینی ترمیم کے خلاف درخواست کی صورت میں قاضی کے ساتھ ججوں کی اکثریت بن جائے۔ اب سوال یہ ہے کہ تفصیلی فیصلے میں کون کون سے اہم پہلوؤں پر آٹھ ججوں کی رائے حکومت پر بجلی گرا سکتی ہے:

‏۱- الیکشن کمیشن اپنا آئینی کردار ادا کرنے میں نہ صرف ناکام رہا بلکہ اِس ادارے نے اپنے حلف کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بظاہر بدنیتی کے ساتھ ملک کے پورے انتخابی عمل اور آئین کو پامال کیا جس پر سپریم جوڈیشل کونسل کو فوری طور پر مفصل تحقیقات کا آغاز کر دینا چاہیے۔ الیکشن کمیشن نے ایک آزاد آئینی ادارے کی طرح کام کرنے کی بجائے ایک سیاسی جماعت کے خلاف فریق بن کر کام کیا۔

‏۲- سپریم کورٹ کے 13 جنوری کو بلے کے نشان متعلق فیصلہ ملک میں موجودہ آئینی اور سیاسی بحران کی بنیادی وجہ بنا جس کی نظر ثانی اپیل پر بروقت سماعت نہ کی گئی، اسی طرح الیکشن کمیشن نے بھی فیصلے کی بروقت وضاحت نہ مانگی اور نہ ہی سپریم کورٹ نے واضح اور کھلے عام اس کی غلط تشریح پر کوئی وضاحت جاری کی۔ سپریم کورٹ سو موٹو نوٹس لے کر بھی بلے کے نشان متعلق اپنے فیصلے پر نظر ثانی یا وضاحت کر سکتی تھی جو نہ کی گئی۔

‏۳- مخصوص نشستوں کا تنازعہ الیکشن ایکٹ کی تشریح یا اُس پر عمل درآمد کا معاملہ نہیں بلکہ آئین کے آرٹیکل 51 اور 106 کے علاوہ 17, 15, 19, اور سب سے بڑھ کر آئین کے preamble میں ذکر شدہ اقتدار اعلی بذریعہ منتخب عوامی نمائیندگی، پارلیمانی اور وفاقی نظام اور عدلیہ کی آزادی کے بنیادی اصولوں ڈھانچے کی خلاف ورزی کا معاملہ ہے-اس تنازعہ کے حتمی حل کے بغیر پارلیمنٹ کے حکومت سازی، آئین سازی اور آئینی ترمیم کے اہم ترین اختیار پر بھی براہ راست اثر پڑتا ہے کہ جہاں مخصوص نشستوں کے محض ایک ووٹ کے فرق سے بھی حکومت اور آئین کا حلیہ تبدیل کیا جا سکتا ہے۔

‏اراکین پارلیمنٹ کو یاد رکھنا چاہیے کہ پارلیمنٹ کی چادر اور چار دیواری کی پامالی میں بیرونی ہی نہیں اندرونی غداروں کا بھی اہم کردار ہوتا ہے۔ کوٹھے کی بالکونی پر کھڑے ہو کر دعوتَ گناہ دینے والوں کی بھی چادر اور چار دیواری ہوتی ہے تو ہماری پارلیمنٹ کی کیوں نہیں۔

‏اب دیکھنا یہ ہے کہ 12 اکتوبر پہلے آتا ہے یا 25 اکتوبر، اِس موقعےآئینی ترمیم 3 نومبریا 12 اکتوبر ہو سکتی ہے 14 اگست نہیں۔ دیکھیں پہلے 12 اکتوبر آتا ہے یا 25 اکتوبر والا 14 اگست۔
ان میں سے ایک پہلے آ گیا تو دوسرا کبھی بھی نہیں آ پائے گا-

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے