نو مئی کو حد کر دی، اب بنیادی حقوق یاد آ گئے، جسٹس مسرت ہلالی
Reading Time: 2 minutesپاکستان کی سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے مقدمات چلانے کے فیصلے پر انٹراکورٹ اپیل کی سماعت ہوئی ہے۔
جمعرات کو مقدمے کی سماعت کرنے والے سات رکنی آئینی بینچ میں شامل جسٹس مسرت ہلالی نے ایک درخواست گزار کے وکیل سے سوال کیا کہ کیا وہ تسلیم کرتے ہیں کہ 9 مئی کا جرم سرزد ہوا تھا؟
وکیل سلمان اکرم نے بتایا کہ وہ اس پر عدالت کی معاونت کریں گے۔
جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ 9 مئی کو حد کر دی گئی، اب آپ کو بنیادی حقوق یاد آ گئے ہیں۔
وکیل سلمان اکرم نے کہا کہ آرٹیکل 184/3 کو محدود نہیں کیا جا سکتا۔ ملزمان کا کھلی عدالت اور شفاف ٹرائل کا حق ہے۔
بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان نے اس پر کہا کہ ’فئیر ٹرائل کے لیے آپ کو آرٹیکل 184 تین سے نکلنا ہوگا۔
وکیل نے عدالت کو بتایا کہ کہ اُن سے گزشتہ روز ایک سوال پوچھا گیا تھا ’اس پر جواب دیتا ہوں کہ آرمی سے متعلق قانون سازی 2015 اور پھر 2017 میں ہوئی تھی۔ آرمی پبلک سکول پشاور (اے پی ایس) والے آج بھی انصاف کے لیے دربدر بھٹک رہے ہیں۔‘
جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ گزشتہ روز اُن کا اشارہ آرمی چیف کی توسیع کے قانون کی طرف تھا۔
جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ آرمی پبلک سکول کے کچھ مجرمان کو پھانسی ہو گئی تھی۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ فوج میں ایک انجینئرنگ کور ہوتی ہے۔ فوج میں ایک میڈیکل کور بھی ہوتی ہے۔ دونوں کور میں ماہر انجینیئر اور ڈاکٹرز ہوتے ہیں۔
�
جسٹس حسن اظہر رضوی کا کہنا تھا کہ کیا فوج میں اب جوڈیشل کور بھی بنا دی جائے گی۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ قانونی امور پر مسلح افواج کی جیگ برانچ ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ایسا نہیں ہے کسی کو پکڑ کر ملٹری ٹرائل کریں گے۔ ’عام ایف آئی آر میں بھی محض الزام پر ملزم کو پکڑا جاتا ہے۔ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کا پرانا قانون صرف جاسوسی کے خلاف تھا۔ آفیشل سیکرٹ ایکٹ میں ترمیم سے نئے جرائم شامل کیے گئے ہیں۔‘
اکیسویں آئینی ترمیم میں سیاسی جماعتوں کی جانب سے فوجی عدالتوں کی حمایت پر جسٹس مسرت ہلالی اور وکیل سلمان اکرم راجہ میں مکالمہ ہوا۔
جسٹس مسرت ہلالی نے تحریک انصاف کی حکومت کے دوران فوجی عدالتوں کے قانون کی حمایت کی جانب اشارہ کیا تو وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ وہ عدالت میں کسی جماعت کی نمائندگی نہیں کر رہے۔
جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ یہ کیا بات ہوئی کہ اب اپوزیشن میں آ کر کہہ دیں کہ ماضی میں جو ہوا غلط ہوا۔