اہم

ججز تقرر کا ’تنازع‘، اختر حسین جوڈیشل کمیشن کی رکنیت سے مستعفی

فروری 24, 2025 2 min

ججز تقرر کا ’تنازع‘، اختر حسین جوڈیشل کمیشن کی رکنیت سے مستعفی

Reading Time: 2 minutes

اختر حسین پاکستان کی سپریم کورٹ میں پریکٹس کرنے والے سینیئر وکیل ہیں۔

وہ گزشتہ کئی برس سے پاکستان کی اعلٰی عدلیہ میں ججز کے تقرر کے لیے قائم جوڈیشل کمیشن کے (وکلا کے نمائندے کے طور پر) رکن تھے۔

اس رکن کو ملک میں وکلا کی سب سے بڑی تنظیم پاکستان بار کونسل نامزد کرتی ہے۔

پاکستان کے آئین کا آرٹیکل 175 اے ہائیکورٹس اور سپریم کورٹ میں ججز کے تقرر کے حوالے سے طریقہ کار بتاتا ہے۔
آئین میں 26ویں ترمیم کے بعد اب جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کے 13 ارکان ہیں۔ ان میں سے پانچ ججز ہیں۔

چیف جسٹس اس کمیشن کے چیئرمین ہیں۔ ان کے بعد سینیئر ججز منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر دیگر ارکان میں شامل ہیں۔

اُن کے بعد آئینی بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان اور پھر پانچویں رکن جسٹس جمال خان مندوخیل ہیں۔

جوڈیشل کمیشن کے ان پانچ ججز ارکان میں سے کچھ عرصہ قبل تک چیف جسٹس اور جسٹس امین الدین ایک ہی لائن و لینتھ پر تھے، اور سرکار کی جانب سے ’آگے بڑھائے جانے والے‘ وکلا کے ناموں کو ججز نامزد کرنے پر متفق تھے۔

جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر اور جسٹس مندوخیل دوسری طرف ہوتے تھے، مگر اب لگتا ہے کہ جسٹس مندوخیل بھی کیمپ بدل گئے ہیں اور ایسا شاید جسٹس منصور علی شاہ کے ایک فیصلے کے غصے میں کیا گیا ہے۔

اب آتے ہیں جوڈیشل کمیشن کے سرکاری ارکان کی جانب، یہ تعداد میں پانچ بنتے ہیں۔

وزیر قانون، اٹارنی جنرل فار پاکستان، پیپلز پارٹی کے فاروق نائیک، ن لیگ کے شیخ آفتاب احمد اور سپیکر کی نامزد کردہ روشن خورشید بھروچہ۔

اپوزیشن کے دو اراکان بیرسٹر گوہر علی خان اور سینیٹر علی ظفر جوڈیشل کمیشن میں شامل ہیں۔

اعلٰی عدلیہ میں ججوں کا تقرر کرنے والے اس کمیشن کے تیرہویں رکن پاکستان بار کونسل کے نمائندے ہوتے ہیں۔
اختر حسین ایڈووکیٹ کو جب نظر آیا ہے وہ نقار خانے میں طوطی کی آواز ہیں اور ’کورٹ پیکنگ‘ میں اُن کی کسی دلیل و منطق کسی ترازو پر تولا نہیں جاتا تو الگ ہو گئے۔

اپنے استعفے میں انہوں نے لکھا کہ ’یہ باعثِ عزت و افتخار رہا کہ پاکستان بار کونسل نے مجھے تین بار جوڈیشل کمیشن کا رکن نامزد کیا، اور میں نے وہاں اپنی بہترین صلاحیتوں کے مطابق کام کیا، مگر اعلیٰ عدلیہ میں حالیہ تقرریوں کے تنازعے میں کام کرنا ممکن نہیں رہا، اس لیے اپنے عہدے سے مستعفی ہو رہا ہوں۔‘

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے