ووٹرز کا فیصلہ سپریم ہے
Reading Time: 2 minutesلاہور ہائی کورٹ میں نواز شریف کی پارٹی صدارت کے خلاف درخواستوں کی سماعت سماعت ہوئی، درخواست گزاروں نے الیکشن قانون دو ہزار سترہ کی شقوں کو چیلنج کر رکھا ہے، چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے ریمارکس دیئے کہ جمہوریت میں رائے دہندگان یعنی ووٹرز کا فیصلہ حتمی اور سپریم ہوتا ہے_
پارلیمنٹ سے الیکشن قانون دو ہزار سترہ پاس ہونے کے بعد نواز شریف دوبارہ مسلم لیگ ن کے صدر بن گئے ہیں، سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد تاحیات نا اہل نواز شریف کو پارٹی صدر بنانے کے لیے حکمران جماعت نے الیکشن قانون دو ہزار سترہ منظور کرایا جسے سیاسی جماعتوں اورعام لوگوں نے سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کی سطح پر چیلنج کیا،عدالت عظمی نے الیکشن اصلاحات قانون کے خلاف تمام درخواستوں کو اعتراض لگا کر واپس کر دیا ہے تاہم ہائی کورٹس میں الیکشن قانون کا معاملہ زیر سماعت ہیں، لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس منصور علی شاہ نے الیکشن قانون دو ہزار سترہ کے خلاف درخواست پر سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ اخلاقی طور برا لگتا ہے کہ نااہل شخص کسی سیاسی جماعت کا سربراہ بنے، مگر برا یا عجیب لگنے کی بنیاد پر قانون کالعدم نہیں کیے جاتے، وفاقی حکومت کے ڈپٹی اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ اسی معاملے پر درخواستوں سپریم کورٹ میں بھی زیر التوا ہیں۔ درخواست گزاروں کے وکلا نے موقف اختیار کیا کہ قانون کے ذریعے ایک نااہل شخص کو سیاسی جماعت کا سربراہ بنایا گیا ہے، یہ اقدام بدنیتی پر مبنی ہے لہذا ہائیکورٹ اسکا جائزہ لے سکتی ہے،چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آئین کے آرٹیکل 17کے تحت کسی بھی شخص کو سیاسی جماعت بنانے کا حق حاصل ہے، آئین میں اور انتخابی قوانین میں نہیں لکھا کہ نااہل شخص یا ڈیفالٹر سیاسی جماعت کا سربراہ نہیں بن سکتا، درخواست گزاروں کے وکلا نے کہا اخلاقی طور پر دیکھا جائے تو یہ بہت ہی عجیب ہے اور برا لگتا ہے کہ سپریم کورٹ نے جس شخص کو کرپشن پر نااہل کیا اس شخص کو قانون میں ترمیم کرکے سیاسی جماعت کا سربراہ بنا دیا گیا ہے،چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اخلاقی طور پر ہو سکتا ہے کہ کوئی بات عجیب یا بری لگے لیکن عدلیہ عجیب یا برے لگنے کی بنیاد پر نہیں، آئین اور قانون کے مطابق فیصلے کرتی ہے _
لاہور ہائیکورٹ نے الیکشن قانون کیخلاف دائر درخواستوں کے قابل سماعت ہونے پر مزید دلائل طلب کرتے ہوئے مزید سماعت آئندہ کی تاریخ تک ملتوی کردی