بحریہ ٹاؤن کے بادشاہ جج
Reading Time: 2 minutesپاکستان میں بظاہر آج کل سپریم کورٹ کے ججوں کی بادشاہت ہے، مگر عملی طور پر یہ پاکستان نہیں بحریہ ٹاؤن کے جج ہیں _ وجہ اس کی یہ ہے کہ یہ جج بحریہ ٹاؤن کے بادشاہ کے مقدمے میں بھی اس کے قبضے کے بارے میں زبان کھولنے کی جرات نہیں کرتے اور جمہوری حکومت کو بادشاہت قرار دیتے ہیں، سپریم کورٹ کے ایک جج نے آج بھی بحریہ ٹاؤن کے کیس میں یہ پھبتی کسی _
کراچی میں سرکاری زمین کی اونے پونے داموں بحریہ ٹاؤن کو الاٹمنٹ کے مقدمے کی سماعت جسٹس اعجازافضل کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کی، پہلے تو عدالت نے سندھ حکومت کی جانب سے نجی وکیل کی خدمات حاصل کرنے پرتشویش کا اظہار کیا، وکیل چونکہ آصف علی زرداری کے دوست اور ماضی میں ججوں کو عدالت واپس لانے کے لیے سودے بازی کرنے والے فاروق ایچ نائیک ہیں، انہوں نے کہا کہ عدالت اجازت دے گی تودلائل دوں گا، وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ حکومت کوآئینی قانونی اور کسی بھی اہم معاملے پر نجی وکیل حاصل کرنے کیا اختیار ہے، جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ اٹارنی جنرل اورایڈووکیٹ جنرلزکی تقرری کے وقت ان کی پیشہ ورانہ صلاحیت کوکیوں نہیں دیکھا جاتا، سرکاری وکیل باصلاحیت اورپیشہ ور ہوتوحکومت کا دفاع کرسکتے ہیں، جسٹس اعجازافضل نے کہا کہ سرکاری وکلا کے تقرر کے وقت احتیاط اور سوچ بچار نہیں کی جاتی، اکثروبیشترسرکاری وکلاکم تجربہ کار غیرمستند ہوتے ہیں، جسٹس اعجازافضل نے کہا کہ لگتا ہے اٹارنی جنرل اور ایڈووکیٹ جنرل کی تقرری کے وقت میرٹ کو نہیں دیکھاجاتا، عدالتی احکامات کے باوجود متعلقہ حکومتوں نے کوئی نوٹس نہیں لیا، جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ کیاسپریم کورٹ پکنک کی جگہ ہے جہاں سرکاری وکلاتیاری کے ساتھ نہیں آتے، جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ ایف بی آر کروڑوں روپے کے ٹیکس میٹر میں جووکیل کرتاہے وہ انتہائی کمزورہوتے ہیں، جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ کراچی میں جوسرکاری زمین الاٹ ہوئی اس کے نقشے پیش کریں جسٹس اعجازافضل نے ہدایات جاری کیں کہ ملٹی میڈیاپرسرکاری زمین نجی کمپنی کوالاٹ کرنے کی نشاندہی کریں_ وکیل فاروق نائیک نے کہا کہ عدالت کاحکم تھالیکن نقشے جمع نہ ہوسکے، جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ ہمیں اندھیرے میں رکھنے کے لیے نقشے اورملٹی میڈیاسی ڈی تیار نہیں کی گئی، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ نقشوں سے معلوم ہوگاکون سی سرکاری زمین الاٹ کی گئی_ وکیل فاروق نائیک نے کہا کہ نقشے جمع نہ ہونے پرعدالت سے معذرت خواہ ہوں، وکیل سندھ حکومت فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ بحریہ ٹاؤن کے حوالے کی گئی زمین جس علاقے میں ہے وہ تین قسم کی ہے، ایک سرکاری زمین پر کرایہ دار ہیں، دوسری سرکاری زمین کے کرائے دار مالک بن گئے ہیں اور تیسری وہ جو جدی پشتی ملی ہے، اس کا حکومت سے تعلق نہیں، یہ قبولی زمین کہلاتی ہے _ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ یہ بھی تو سرکاری ہی زمین تھی – فاروق نائیک نے کہا کہ چونکہ بادشاہت بھی تھی_ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ وہی پنچ ہزاری اور دس ہزاری کی اصطلاح بھی تھی _ اسی موقع کی تاک میں بیٹھے جسٹس اعجازالاحسن نے اپنا بغض جمہوری حکومت پر نکالتے ہوئے کہا کہ بادشاہت تو ابھی بھی ہے _ سندھ حکومت کے وکیل فاروق نائیک جج کے طنز کو نہ سمجھ سکے کہ انہوں نے سندھ حکومت کو نشانہ بنایا ہے اور بولے کہ یہاں اس پر تبصرہ نہیں کروں گا، سینٹ میں اس (بادشاہت) پر بحث کر سکتا ہوں _ اس کے ساتھ ہی سماعت میں وقفہ ہو گیا _