ترین کی جنت
Reading Time: 2 minutesسپریم کورٹ میں جہانگیر ترین کی نااہلی کے لیے دائر درخواست کی سماعت کے دوران وکیل سکندر بشیر نے کہا ہے کہ لندن کے ایک مضافاتی گاؤں میں جہانگیر ترین نے اپنے بچوں کے لیے بارہ ایکڑ اراضی خرید کر گھر بنایا ہے اور اس کے لیے اکیس لاکھ پاؤنڈ برطانیہ منتقل کیے گئے، وکیل نے کہا کہ یہ رقم دو ہزار گیارہ میں قانونی طور پر لندن بھیجی گئی کیونکہ ترین نے پاکستان میں حلال کاروبار کیا ہے _ وکیل نے کہا کہ رقم ٹرسٹ کے نام منتقل کی گئی اس لیے یہ جہانگیر ترین کا اثاثہ نہیں اور اسی وجہ سے ٹیکس گوشواروں اور کاغذات نامزدگی میں لندن پراپرٹی کا ذکر نہیں کیا_ چیف جسٹس نے کہا کہ جو کچھ بتا رہے ہیں اس کا مکمل ریکارڈ بھی امید کرتے ہیں کہ فراہم کریں گے، یہ تو نہیں ہوگا کہ میں نے یہ رقم اس کو دی اور اس نے فلاں کو دیدی _ مکمل شفافیت کے ساتھ فریقین کو سنیں گے _چیف جسٹس نے کہا کہ آف شور کمپنی اورٹرسٹ کوسمجھناچاہتے ہیں، جسٹس عمر عطا نے پوچھا کہ شائنی ویوکمپنی کاٹرسٹی کون ہے، وکیل نے کہا کہ شائنی ویو کاٹرسٹی ای ایف جی کارپورٹ بینک ہے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ پاکستان میں حالات ایک جیسے نہیں رہتے، بچوں کوباہرپڑھانابھی ہوتا، چیف جسٹس نے کہا کہ مجھے سمجھائیں کہ پیسہ پاکستان سے کمالیا، باہرآناجانابھی لگارہتاہے کل کوحالات بدل بھی سکتے ہیں، ہمیں بتائیں باہرجائیداد خریدنی ہوتوکیاطریقہ کار ہے، میرا دماغ ذراسست ہے چیزیں سمجھنے میں ٹائم لیتاہے، وکیل نے کہا کہ مائی لارڈ,ایسی بات نہیں ہے، سکندر بشیر نے کہا کہ سب سے پہلے ٹرسٹ بنایاہے وہ ٹرسٹ پھرآف شورکمپنی خریدتاہے، ٹرسٹ 5مئی 2011کوبنایاگیاہے، عدالت نے پوچھا کہ ٹرسٹ بنانے کی دستاویزات کدھرہے؟
وکیل نے کہا کہ عدالت کوٹرسٹ دستاویز اورجہانگیرترین کے بچوں کے گوشوارے بھی دوں گا، یہ پرائیویٹ دستاویز ہیں انھیں پبلک نہ کیاجائے،چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں دکھادیں دستاویزات کو پبلک نہ کرنے کاکوئی استحقاق ہے، عدالت کے ریکارڈ طلب کرنے پر کوئی قدغن نہیں ہے، جہانگیر ترین کوبتادیں کہ یہ چیز شفاف اورکھلی عدالت میں ہوگی، پہلے دن کہاتھاتمام ریکارڈ لایاجائے، محکمہ مال کاریکارڈ بھی طلب کیاتھا_