یوں تو بچے لڑتے ہیں
Reading Time: 5 minutesاکیسویں صدی میں بھی پتھر کے زمانے میں رہنے والے ریاست نائجیریا کے دو قبیلوں ‘یوروبا’ اور ‘بلوکی’کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ ان کا سردار اگر بیمار ہوجائے یا قبیلے کے معاملات کو بہتر طور پر چلانے کے قابل نہ رہے تو وہ خودکُشی کرلیتا ہے۔ اور اگر وہ ایسا نہ کرے تو قبیلے کے باقی لوگ سردار کا گھیراؤ کر کے حقارت آمیز گانے گاتے ہیں جس سے یا تو سردار تنگ آ کر خودکُشی کر لیتا ہے یا پھر بستی چھوڑ کر کہیں نکل جاتا ہے۔
مگر ہمارے سردار کے ساتھ زیادہ تر دوسرا والا معاملہ ہی ہوتا ہے۔ بہت کم ہوا ہوگا کہ سردار نے خودکُشی کی ہو۔ زیادہ تر کو ہمارے قبیلے کے ہی بھائی لوگ قبیلے کی اپوزیشن کے کچھ خاص لوگوں کے ساتھ مل کر گالیاں نکالتے ہیں اور حقارت آمیز گانے گاتے ہیں جس سے سردار کی ساکھ کو نقصان پہنچتا ہے ۔ اور وہ اس کنفیوژن کی کیفیت میں کبھی ادھر کبھی اُدھر بھٹکتا ہے، اور نائجیریا کے قبیلوں کے سردار کی طرح بالآخر برطرف کر دیا جاتا ہے۔ خیر پھر آئین منسوخ ہونا ہوتا ہے، منصفیوں کو بالوں سے پکڑ کر کُرسی عدل سے اُتار پھینکا جاتا ہے، آزادی رائے کا راگ الاپنے والوں کے قلم توڑے جاتے ہیں۔ نئے الیکشن کرانے کے جذباتی وعدے، اور پھر وہی عناصر جو جمہوریت کو ختم کرنے میں آگے آگے رہے ہوں، ان کے ذریعے سے پارلیمنٹ میں اپنی اجارہ د اری قائم کی جاتی ہے ، ہمارے ہاں تو سسٹم چینج کرنے کا اب تک یہی ایک طریقہ ہوا کرتا ہے، مگر اب کے ڈائنیمکس کچھ بدلے بدلے سے لگ رہے ہیں۔ مگر بات وہی پُرانی شراب نئی بوتل والی ہے۔
موجودہ تنازعہ ظاہری طور پر ڈان اخبار میں شائع خبر سے شروع ہوتا ہے۔ اس سے پہلے بھی اس وقت کے وزیر دفاع، وزیر داخلہ اور ایک دو وزراء کے بیچ اس طرز کی ناراضگیاں چل رہیں تھیں۔ ایک واضح پیغام اس وقت بھی ملا جس وقت سابق آرمی چیف راحیل شریف اور سابق وزیراعظم نواز شریف امریکہ کے دورے پر تھے اور وہاں اس وقت کے صدر باراک اوبامہ اور راحیل شریف کے درمیان کچھ تلخ حقائق پر تو تو میں میں ہوگئی جسے نواز شریف شانت ہو کر سُنتے رہے، اس بات کو عسکری حلقوں میں شدید ناپسند کیا گیا اور نواز شریف اور ان کی حکومت کے خلاف تب سے ہی درجہ بندیوں کا آغاز ممکنہ طور پر ہوگیا تھا۔ اختلافات کھُل کر تب سامنے آئے جب ایک طرف تو پہلے سے ہی خواجہ آصف اور دوسرے وزراء کے بیچ اختلافات کو ہوا دی جا رہی تھی دوسری جانب ڈان اخبار کے سرل المیڈا نے سیکیورٹی کے معاملے پر ہونے والے ایک مشترکہ اجلاس کی معلومات لیک کر دیں جو کہ بعد میں ایک بہت بڑا تنازعہ بن گیا۔ معاملے کی ڈنڈے کے زور پر تحقیقات ہوئیں، سابق وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید اور سابق مشیر برائے وزیراعظم طارق فاطمی کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا اور انہیں گھر کا راستہ دکھا دیا۔ یہ تھی باقاعدہ طور پر شروع ہونے والی جنگ کی پہلی قربانی۔ اس سے پہلے ہونے والے سب سے اہم ایونٹ ‘126 دن کے دھرنے کو تو میں بھول ہی گیا جو کہ اس پوری فلم کی ایک اہم کڑی تھی۔ پورے ایک سو چھبیس دن اپویشن کی ایک بڑی جماعت سڑکوں پر سردار کو گالیاں دیتی رہی جس سے سردار کی ساکھ کو تو کمزور ہونا ہی تھی، دھرنا بلاشبہ ناکام ہوا مگر اس نے حکومت کو سیٹ بیک کرنے میں سب سے بڑا اور اہم کردار ادا کیا۔ دوسری جانب ہمارے ہاں قبیلے کا سب سے مقبول اور مضبوط عنصر مذہب کا ہے۔ مذہب کیونکہ بہت ہی حساس معاملہ ہوتا ہے مگر ہمارے کچھ مفاد پرست لوگ سردار کو کمزور کرنے کے لیئے مذہب کا استعمال کرتے ہیں۔ آج کل اسلام آباد کی شاہراہیں ہمارے قبیلے کے مذہبی بھائیوں نے ہی بند کی ہوئی ہیں جن کے کچھ مطالبات ہیں اور وہ ان کی منظوری تک اسلام آباد کے بالکل بیچ میں دھرنا دیئے بیٹھے ہیں۔ یہ معاملہ الگ سے اپنی حیثیت بالکل رکھتا ہوگا مگر اس سب کا ایک خاص وقت میں ہونا اور چند سو لوگوں کا یوں بہت ہی آسانی کے ساتھ بغیر کسی روک ٹوک کے شہر اقتدار کی مرکزی شاہراہیں بند کر دینا کسی بڑی گیم یا اسٹریٹجی کی چھوٹی مگر ایک اہم چال معلوم ہوتی ہے۔ اہم بات یہ کہ حالات کو مزید خراب کرکے حکومت کی طاقت کو آزمانا اور حکومت کی رِٹ کو بار بار چیلنج کرنا اس کو گالیاں دینا۔ سردار کی حیثیت کو مزید کمزور کرنے کے مترادف ہی تو ہوا کہ یا تو وہ خود کُشی کرلے، مطلب کہ یا تو وہ خود اسمبلیاں تحلیل کرنے کا فیصلہ کرلیں یا پھر مزید پریشر بڑھایا جائے۔ عمران خان نے بھی ایک بیان میں فوری نئے الیکشن کرانے کو وقت کی اہم ضرورت قرار دے دیا ہے۔ اسی اثنا میں ایک اور اہم پیشرفت کراچی میں دیکھنے میں اس وقت آتی ہے کہ جب فاروق میاں کمال میاں سے ہاتھ ملاتے ہیں اور اگلے ہی لمحے طلاق دے دیتے ہیں، کمال میاں انکشاف کرتے ہیں کہ یہ نکاح ہمارے قبیلے کے ہی کچھ بھائیوں کی جانب سے کرایا گیا تھا۔ اس سے یہ مکمل طور پر تو نہیں چلئے جزوی طور پر تو نظر آہی رہا ہے کہ اس وقت سارا کھیل کس کے ہاتھ میں ہے۔
ایک طرف گریٹ الائنس بنانے کے چرچے دوسری جانب دارالحکومت میں مذہبی شدت پسند طاقتوں کی جانب سے حکومت کی رِٹ کو چیلنج کرنے جیسی سازشیں ایسا تاثر لیے ہوئے ہیں کہ سیاست ویسے تو ایک گندا کھیل ہے عوام کو اس میں بالکل بھی دلچسپی نہیں لینی چاہیے ساتھ ہی ساتھ سابق ڈکٹیٹرز کو سیاست میں مکمل حمایت کے ساتھ اِن کروانے کی بھرپور کوششیں کہیں رنگ لے ہی نہ آئیں۔ حکومتی حلقوں کا تمام معاملات سے اظہار لاتعلقی یا خاموشی ان کے سرنڈر کی سی کیفیت کی طرف اشارہ کرتی ہے، اُسی لمحے حکومت کا خاموش بیٹھنا عقلمندی لگنے لگتا ہے۔ پاکستان میں اقتدار کے لیئے انتخاب کا معیار کسی بھی حوالے سے ‘ترقی پذیر ممالک’ کی طرح نہیں ہے، ترقی یافتہ ممالک کا تو تصور ہی نہ کریں۔ عوام حکمرانوں کو پہلے تو لاکر بٹھاتے ہیں، اور پھر بہت جلد ان کے اقتدار سے بے دخلی کی تحریکیں شروع ہوجاتی ہیں۔ اسی میں ایک خاص مفاد پرست گروہ یکجا ہوکر حرکت میں آتا ہے، عوام کی ناپسندیدگی کی بنیاد پر حکمرانوں کی اقتدار سے علیحدگی کو حتمی شکل دیتا ہے ۔ اقتدار حاصل کرکے وہ گروہ پرویز مشرف یا ضیاء الحق مرحوم کی کابیناؤں کی شکل میں سامنے آتا ہے۔ مشرف صاحب کی اسمبلی میں تو بڑے بڑے سورما پائے گئے جن کا بیان آن ریکارڈ ہے کہ ‘باوردی جرنیل کو سو بار صدر منتخب کروائیں گے’۔ ویسے تو اس ملک کے ہر ڈکٹیٹر نے پاکستان میں اصل جمہوری اقدار اور کرپشن سے پاک پاکستان جیسے نعرے لگا کر اقتدار پر قبضے کا ویلکم نوٹ دیا تھا۔مگر ہوا یوں کہ پاکستان اپنے ہر دور، چاہے وہ ڈکٹیٹر کا ہو یا جمہوری، ان جمہوری اقتدار سے دور جاتا گیا جن سے ہی ملک میں ہر طرح کا استحکام لانا ممکن تھا۔
بہرحال ماضی کی طرح اس بار بھی ‘مصطفی کمال کے’ قبیلے کے بھائی لوگوں کے سیاست میں مداخلت’ کے حوالے سے پھسلے ہوئے بیان کے بعد ‘ سوشل میڈیا سمیت عام زندگی کے ہر حلقے میں یہ داغ دھونے کی بھرپور کوشش کی جارہی ہے کہ بھائی لوگوں کا پی ایس پی سمیت پاکستان کی کسی بھی سیاسی جماعت کی پشت پر نہیں ہے، اور ایم ایم اے کے حوالے سے تو جناب توبہ کیجیے۔ساتھ میں پروپیگنڈا کو مائنس کرنے کے لیئے ثبوت بھی پیش کیئے جارہے ہیں مگرکیا ہے نہ اس طرح کے داغ فی الوقت تو شائد مٹ جائیں مگر تاریخ کی چھاپ کبھی نہ مٹتی ہے اور نہ ہی آج تک کبھی نظر انداز کی جاسکی ہے۔ مگر کیا کروں اُمید کرنا پڑتی ہے کہ میرے ملک میں بھی کبھی پُرامن طور پر سیاسی عمل آگے بڑھے اور اس کو اندرونی اور بیرونی خطرات متاثر نہ کر پائیں، آخر ہمیں بچوں کی طرح لڑتے رہنے کو کبھی تو ترک کرنا ہی ہے۔