شہر شرپسندوں کے ہاتھوں یرغمال ہے، سپریم کورٹ
Reading Time: 2 minutesعدالت عظمی کے جسٹس مشیر عالم اور جسٹس قاضی فائز پر مشتمل دو رکنی بنچ نے اسلام آباد/ راولپنڈی کے دھرنے دینے والوں سے متعلق ایک مقدمے میں تحریری حکم جاری کیا ہے۔
عدالتی حکم نامے میں لکھا ہے کہ شیرجمال و دیگر بنام ولی سردار و دیگر کے مقدمے کی سماعت کا آغاز ہوا تو ایڈووکیٹ آن ریکارڈ رفاقت حسین شاہ نے ایک درخواست دے کر کیس ملتوی کرنے کی استدعا کی، درخواست میں کہا گیا ہے کہ وکیل ابراہیم ستی اس مقدمے میں آج اس لیے پیش نہ ہو رہے کہ ان کا دفتر اس جگہ ہے جہاں دھرنا دینے والوں نے سڑک بند کر رکھی ہے۔
عدالتی حکم نامے کے مطابق ڈپٹی اٹارنی جنرل سہیل محمود سے جب عدالت نے پوچھا کہ کیا عوامی ہائی وے اورسڑکوں کو بند کیا جا سکتاہے؟ تو انہوں نے بتایا کہ دھرنے کی وجہ سے خود ان کو بھی عدالت آنے میں شدید مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، کہا کہ وہ عدالت آنے کیلئے صبح ساڑھے چھ بجے گھر سے نکلتے ہیں۔
عدالتی حکم میں لکھا گیا ہے کہ یہ نظر آتا ہے کہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد اور اس کا جڑواں شہر راولپنڈی چند شرپسندوں کے ہاتھوں یرغمال ہے جبکہ ریاستی حکام عام لوگوں کو عدالتوں، اسکولوں، دفاتر اور دیگر مقامات پر جانے کیلئے راستہ کھولنے کی بجائے ان سے بات چیت کے ذریعے معاملات طے کر رہے ہیں۔ یہ بھی رپورٹ کیا گیا ہے کہ ایمبولینس اور بیمار افراد کو ہسپتال پہنچانے میں بھی مشکل کا سامنا ہے، بچے اسکول اور طلبہ کالج یونیورسٹیوں تک نہیں پہنچ سکتے۔ یہ بھی رپورٹ کیا گیا ہے کہ دھرنے میں لیڈرز گالیاں دیتے اور گندی زبان استعمال کرتے ہیں جس سے اشتعال اور دشمنی کو پھیلایا جا رہا ہے۔
عدالتی حکم میں کہا گیا ہے کہ موجودہ صورتحال سے ظاہر ہے کہ یہ عوامی مفاد کا معاملہ ہے اور شہریوں کے کئی بنیادی حقوق جو آئین پاکستان نے دیے ہیں،جن میں آرٹیکل نو (زندگی کاحق) اور آرٹیکل پندرہ ( نقل وحرکت کی آزادی) اور آرٹیکل پچیس اے (تعلیم کے حصول کا حق) بظاہر متاثر ہو رہے ہیں، اس لیے عدالت کو اختیار حاصل ہوتا ہے کہ آرٹیکل ایک سو چوراسی کی شق تین کے تحت نوٹس لیا جائے۔
عدالت نے اپنے آرڈر میں لکھا ہے کہ وہ لوگ جو دھرنے میں شامل ہیں بظاہر ایک مذہبی مقصد کیلئے عدالتوں سے رجوع کیے بغیر جدوجہد کر رہے ہیں بشمول وفاقی شرعی عدالت کے۔ اور قانون کو اپنے ہاتھوں میں لے کر تفرقہ اور اختلاف پھیلا رہے ہیں جو کہ اللہ تعالی کے قرآن کی سورہ الشورہ کی آیت تیرہ اور سورہ العمران کی آیات ایک سو تین اور ایک سو پانچ میں دیے گئے احکامات کے خلاف ہے ۔ (اس کے بعد اللہ کے رسول کا جبل عرفات پر دیا گیا خطاب عدالتی حکم میں شامل کیا گیا ہے)۔ یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا دھرنے سے آنے والی آوازیں اور خیالات آئین کے آرٹیکل انیس (گلوری آف اسلام) کو مجروح کرتے اور آئین کے آرٹیکل دو سو ستائیس سے متصادم ہیں۔
اسی وجہ سے یہ عدالت اٹارنی جنرل پاکستان، سکرٹری داخلہ، سیکرٹری دفاع اور ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو نوٹس جاری کرتی ہے۔ اٹارنی جنرل کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ وزارت داخلہ، دفاع، انٹیلی جنس ایجنسیوں اپنی متعلقہ وزارتوں کے ذریعے بشمول انٹیلی جنس بیورو ( آئی بی) اور انٹرسروسز انٹیلی جنس ( آئی ایس آئی) کے جواب جمع کرائیں کہ اگر شہریوں کے حقوق کے تحفظ کیلئے کوئی اقدامات کیے گئے ہیں تو بتایا جائے۔