ریاست مرے گی یا نہیں؟
Reading Time: 7 minutesسپریم کورٹ سے اے وحید مراد
لاپتہ افراد کا مقدمہ سننا، اور اسے رپورٹ کرنا بھی ایک مشکل کام ہے کیونکہ ججوں سمیت سب بے بس ہوتے ہیں,صرف لیکچر ہوتاہے یا ریمارکس دیے جاتے ہیں۔
جسٹس اعجازافضل کی سربراہی میں جسٹس دوست محمد خان اور جسٹس اعجازالاحسن پر مشتمل تین رکنی بنچ نے لاپتہ افراد کے مقدمے کی سماعت کا آغاز کیا تو عدالت کے روسٹرم پر آمنہ مسعود جنجوعہ اور وکیل کرنل ریٹائرڈ انعام لاپتہ افراد کی جانب سے موجود تھے جبکہ ڈپٹی اٹارنی جنرل ساجد الیاس ، پختون خوا، پنجاب کے سرکاری وکیل اور لاپتہ افراد کمیشن کے رجسٹرار بھی کھڑے تھے۔
عدالت کی جانب سے پوچھا گیا کہ لاپتہ تاسف ملک سے حراستی مرکز میں اہل خانہ کی ملاقات کرانے کاحکم دیا تھا کیا ہوا؟۔سرکاری وکیل نے بتایاکہ ملاقات کرادی گئی ہے۔ تاسف ملک کے سسر نے عدالت کو بتایاکہ صر ف تین منٹ کی ملاقات کرائی گئی اور اس میں بھی چار گارڈز گنیں تانے کھڑے تھے، ہماری گفتگو بھی ٹیپ کی جارہی تھی، تاسف نے کہاکہ عدالت بلائے گی تو تب ہی کچھ بتا پاﺅں گا، وکیل کرنل انعام نے کہاکہ تین سال بعد تین منٹ کی ملاقات کرائی گئی۔جسٹس دوست محمد خان نے کہاکہ یہ نازک معاملہ ہے، جب ہائیکورٹ میں تھا تب آئی ایس آئی اور ایم آئی کے نمائندوں کی مرضی سے طے کیا گیا تھا کہ حراستی مراکز میں قیدیوں کی اہل خانہ سے ملاقات کیلئے طریقہ کارکیا ہوگا، احتیاطی تدابیر ضروری ہیں مگر ملاقات سہولت کے ساتھ کرائی جائے۔جسٹس اعجازافضل نے کہا کہ ہم جاننا چاہیں گے کہ کس قانون کے تحت کس جرم میں زیرحراست ہے؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے اس بارے میں رپورٹ بھی مانگی ہے۔ جسٹس دوست محمد نے کہا کہ متعلقہ حکام سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر بھارتی جاسوس کو اہل خانہ سے ملاقات کیلئے سہولت فراہم کی جاسکتی ہے تو یہی سہولت اپنے شہریوں کیلئے کیوں فراہم نہیں کی جاسکتی؟۔ وکیل کرنل انعام نے کہاکہ تاسف ملک کے کیس میں عدالت کو بتایا گیا تھا کہ ایک میجر کا ٹرائل ہورہاہے اس کی پیش رفت رپورٹ طلب کی جانی چاہیے۔
عدالت نے دوسرے لاپتہ عادل خان کے مقدمے میں سرکاری وکیل سے پیش رفت کا دریافت کیا تو بتایا گیاکہ چودہ نومبر دوہزار آٹھ کو پشاور ہائیکورٹ نے حکم دیا تھا جس پر انکوائری میں معلوم ہواکہ صرف لاپتہ ہے اور کسی پر کوئی الزام عائد نہیں کیاگیا، تمام ایجنسیوں کو دوبارہ لکھاگیاہے جواب کا انتظار ہے۔ جسٹس اعجازافضل نے کہاکہ اب ایسی صورتحال میں کیا کریں؟۔آمنہ مسعود جنجوعہ نے کہاکہ یہ ان سرکاری وکیلوں کا معمول ہے، لاپتہ افراد کمیشن بھی ایسے ہی کام کررہاہے،سات سال ہوگئے عادل خان کے مقدمے کو بھی۔ پورے ملک میں لاپتہ افراد کے ورثاءقطاروں میں لگے ہوئے ہیں، کمیشن میں سات ماہ بھی ایک کیس کی باری آتی ہے، انصاف دینے کاکمیشن کا یہ تیس سالہ منصوبہ ہے۔لوگ اذیت کا شکار ہیں ان کے مسئلے حل کرنے کا یہ طریقہ نہیں۔
عدالت میں لاپتہ مدثراقبال کے مقدمے کا نمبر پکارا گیا تو جسٹس دوست محمد نے سرکاری وکیلوں سے پوچھاکہ جے آئی ٹی اور دیگر کی رپورٹس میں تضاد کیوں ہے؟ دونوں کو آمنے سامنے بٹھا کر پوچھا کیوں نہیں گیا کہ کون سچ بول رہا ہے اور کون جھوٹ؟۔ آمنہ مسعود نے عدالت کو بتایاکہ اقوام متحدہ کے جبری لاپتہ کیے گئے کمیشن کی رپورٹ کے مطابق مدثر اقبال کسی خفیہ ادارے کے سیل میں ہے۔سرکاری وکیل نے کہاکہ مدثر اقبال کے حوالے سے رپورٹ دی جاچکی ہے اور خفیہ ایجنسیاں اس کی موجودگی سے لاعلمی ظاہرکرچکی ہیں۔ جسٹس دوست نے کہاکہ عدالت میں جمع کرائی گئی رپورٹ جوڈیشل ریکارڈ بن چکی ہے، کل کو اگر مدثر اقبال کا فوجی عدالت میں ٹرائل کرکے سزا دی گئی توسپریم کورٹ کا ریکارڈ خلاف جائے گا اور بات کھل جائے گی کہ غیرقانونی طور پر حراست میں رکھا گیا اور عدالت سے جھوٹ بولاگیا۔جسٹس دوست محمد نے کہاکہ سوات میں آپریشن کے بعد اڑھائی تین ہزار افراد کو کسی دوسری جگہ حراست میں رکھا گیا، ہائیکورٹ نے کہاتھاکہ ان افراد کو چھوڑ دیں یا پولیس کے حوالے کردیں۔ وکیل کرنل انعام بولے کہ قوم کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ حراستی مراکزمیں کتنے افراد ہیں، کل بیالیس مراکز ہیں۔ سرکاری وکیل ساجد الیاس نے فورا ردعمل ظاہرکرتے ہوئے کرنل انعام کو بتایاکہ کل ایک ہزار چارسو گیارہ افراد حراستی مراکز میں ہیں اور اس کی رپورٹ دی جاچکی ہے۔
جسٹس اعجازافضل نے پوچھا کہ حراستی مراکز میں قید افراد کا ٹرائل کیوں نہیں کیا جاتا؟۔ سرکاری وکیل بولے کہ اخبار میں خبر آئی ہے کہ کچھ مقدمات فوجی عدالت میں ٹرائل کیلئے بھیجے گئے ہیں۔ جسٹس دوست محمد نے کہا کہ وفاقی حکومت کا وکیل بھی اخبار کی خبروں سے بتارہاہے، عدالت کو رپورٹ میں بتاناچاہیے ۔ جسٹس دوست محمد نے کہا کہ آئین کی سبزکتاب کا احترام ہی نہیں، اس کو نصاب میں بڑی کلاسوں کیلئے شامل کرنا چاہیے، اگرکسی نے جرم کیا ہے تو قانون کے مطابق سزا دیں، سالہا سال سے سوات اور قبائلی علاقوں میں لوگ حراست میں ہیں، آئین میں لکھا ہے کہ گرفتار شخص کو چوبیس گھنٹے کے اندر مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیاجائے گا، برسوں سے حراست میں رکھنا غیرآئینی اور غیر قانونی ہے۔جسٹس اعجازافضل نے کہاکہ یہ بات بالکل واضح ہے کہ کسی کو غیرمعینہ عرصے کیلئے زیرحراست نہیں رکھا جاسکتا۔ وکیل کرنل انعام نے کہاکہ یہ تو عام شہری ہیں، گروپ کیپٹن کو سروس کے دوران ٹارچر کرکے مار دیا گیا ہے۔جسٹس دوست محمد نے کہاکہ بدقسمتی یہ ہے کہ ان لوگوں نے اپنی ساکھ کو کھویا ہے، ایجنسی والے عدالت کے سامنے سچ نہیں بولتے،ہم بھی نہیں چاہتے کہ کسی مجرم کو معاشرے میں کھلا چھوڑدیں۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ لاپتہ افراد کے بارے میں معلومات ہیں اور نہ ہی ان کے خلاف کوئی ثبوت ۔ سرکاری وکیل ساجد الیاس بولے کہ ان میں سے کچھ افغانستان میں ہیں۔ جسٹس دوست نے کہاکہ افغانستان کی بات رہنے دیں یہ بتائیں کہ آپ کے پاس معلومات کیاہیں اور ثبوت کہاں ہیں؟۔فراہم کردیں تو ہم معاملہ نمٹادیں گے۔ سرکاری وکیل نے کہا کہ کمیشن نے وقت مانگا ہے چھ ہفتے میں معلومات دیدیں گے۔
عدالت میں سفید داڑھی والا ایک عمررسیدہ شخص کھڑا ہوا ، پشتو میں کچھ بولنے لگا تو آمنہ مسعود نے کہاکہ یہ لاپتہ خیرالرحمان کا والد ہے، آج ان کا مقدمہ نہیں لگا، گزشتہ سماعت پر کارروائی مکمل نہیں ہوئی تھی اس لیے یہ آج بھی آئے ہیں۔ جسٹس اعجازافضل نے انگریزی میں کہاکہ (ہزویری پریزنس ان دا کورٹ از سپائن چلنگ فار اس) اس بزرگ کی عدالت میں موجودگی ہی ہمارے رونگٹے کھڑے کر دیتی ہے۔سرکاری وکیل نے کہاکہ آئی ایس آئی اور ایم آئی کی رپورٹ بھی دی تھی، آئی بی نے بھی کہا ہے کہ شدت پسندوں سے رابطے تھے۔ آمنہ مسعود نے کہاکہ خیرالرحمان کو لے کر جانا والا پولیس ایس ایچ او ارشد آج تک قبل ازگرفتاری ضمانت پر ہے، عرصہ ہوگیا اس کے خلاف مقدمہ درج ہوا تھا مگر آج تک تفتیش نہیں ہوسکی کہ اس نے خیرالرحمان کو کس کے حوالے کیا؟۔ اس دوران بزرگ شخص روسٹرم پر بولنے کی کوشش کرتارہا تو وکیل نے کندھے پر ہاتھ کر دلاسا دیا اور خاموش رہنے کیلئے کہا۔ بزرگ شخص نے روسٹرم کو چھوڑا، عدالت میں کرسیوں پر بیٹھے پنجاب پولیس کے اہلکاروں کے پاس گیا اور ایس ایچ او ارشد کے بارے میں پشتو میں پوچھتا رہا۔ (حالانکہ کیس پختون خوا کا ہے)۔ پویس والوں نے لاعلمی کا اظہار کیا تو بزرگ شخص واپس روسٹرم پر آیا اور آمنہ مسعود جنجوعہ کو کچھ بتانے کی کوشش کرنے لگا۔جسٹس اعجازافضل نے کہاکہ ہمیں یہ مقدمہ یاد ہے۔ عدالت میں معاوضہ کی بات کی گئی تو وکیل کرنل انعام نے کہاکہ یہ ریاست کے خلاف جرم ہے معاوضے کی بات کیسے کی جاسکتی ہے۔آمنہ مسعود نے بتایا کہ عدالتی حکم کے باوجود سپریم کورٹ میں پیش کی جانے والی لاپتہ افراد کمیشن کی رپورٹ ہمیں نہیں ملتی، پتہ ہی نہیں ہوتاکہ کیا لکھ کرلائے ہیں، رپورٹ فراہم کی جائے تاکہ متاثرین کی مدد کرتے ہوئے ان کو آگاہ کرسکوں۔ ( عدالت کے باہر خیرالرحمان کے بزرگ والد نے میرے پوچھنے پر پشتو میں بتایا کہ اس کے بیٹے کو حراست میں لینے والے ایس ایچ او ارشد نے گھر آکر بیس لاکھ دینے کی پیش کش کی تھی مگر میں نے انکار کردیا، میرے پاس کھانے کیلئے کچھ نہیں مگر اپنے بیٹے کا گوشت بیچ کرپوتوں کو نہیں کھلا سکتا)۔
سرکاری وکیل ساجد الیاس نے کہاکہ ہربار نئی رپورٹ ہوتی ہے، اگر یہ کیس مکمل ہو گیا تب بھی یہ عدالت آئیں گے۔آمنہ مسعود نے وکیل کے طنز کاجواب دیتے ہوئے کہاکہ اگر سوسال لگیں گے تب بھی ان کو ہربار رپورٹ دینا ہوگی، اور جب تک آخری لاپتہ شخص کا معلوم نہیں ہوتا عدالت میں کھڑی رہوں گی۔جسٹس اعجازافضل نے ریمارکس دیے کہ عدالتوں کو اصل حقائق نہ بتانے کے پیچھے چھپی منطق سمجھ نہیں آتی۔
جسٹس دوست محمد نے کہاکہ جب پشاور ہائیکورٹ میں تھا تو ایک لاپتہ شخص کا مقدمہ آیا، خفیہ اداروں نے رپورٹ دی کہ ہمارے پاس نہیں۔ اگلے ہفتے اس لاپتہ نے سنتری سے بندوق چھینی اور فائر کردیا، اس کی رپورٹ متعلقہ تھانے میں درج کراکے اس کی حراست کو قانونی بنانے کی کوشش کی توہائیکورٹ نے ایکشن لیا اورکیپٹن کے کورٹ مارشل کی سفارش کی بات کی تو وہ ہل گیا۔ ہم نہیں چاہتے کہ موجودہ حالات میں ایسی کوئی بات ہو۔ایک شخص کو لاپتہ کرکے ڈیڑھ سو افراد کو اپنا دشمن بنادیا جاتا ہے کیونکہ غائب کئے جانے والے کے رشتہ دار ہوتے ہیں۔ وکیل کرنل انعام نے کہاکہ ایک سو سے زائد لاپتہ افراد حراست میں مرچکے ہیں۔
عدالت میں ایک بزرگ خاتون کھڑی ہوئی اور کہاکہ جج صاحب،میرے بیٹے فیصل فراز کا پتہ لگائیں، بارہ سال گزرگئے۔ آمنہ مسعود نے عدالت کو بتایاکہ فیصل فراز اور میرے شوہر مسعود ایک ہی دن لاپتہ ہوئے تھے، فیصل فرازلاہور میں انجینئر تھے، کمیشن نے چار سال قبل یہ معاملہ نمٹا دیا ہے۔ جسٹس اعجازافضل نے کہا ہم یہ کیس ختم نہیں کررہے، اس طرح نہیں چھوڑ سکتے۔ جسٹس دوست محمد نے کہاکہ وفاقی حکومت کے وکیل عدالت کو بتا رہے ہیں کہ ریاست میں ایسی جگہیں بھی ہیں جہاں حکومت نہیں جاسکتی اورہماری پہنچ سے دور ہیں۔
بزرگ خاتون نے کہاکہ مجھے ذرا بولنے دیں۔ جسٹس اعجازافضل نے کہاکہ آپ ایک گھنٹہ بولیں آپ کو سنیں گے۔ بزرگ خاتون بولیں کہ میں اب کیاکہہ سکتی ہوں، یادداشت ختم ہورہی ہے، اکلوتابیٹاتھا، اور کتنا جھیلوں گی۔بارہ سال سے کچھ نہیں ہوسکا، مجھے میرا بیٹا چاہیے، یہ ریاست نہیں مرے گی مگر ہم نے مرجانا ہے، اب وقت کم ہے۔جسٹس اعجازافضل نے کہاکہ ریاست وہی رہتی ہے جہاں ایک شخص کا مرنا پوری ریاست کے مرنے کے برابر ہو، ریاست کیلئے ہم نے بھی یہی کہنا ہے۔ بزرگ خاتون نے کہاکہ نہیں، یہ نہیں مانتے، انہوں نے نہیں مرنا۔جسٹس اعجازافضل نے کہاکہ یہ قرآن کا حکم ہے(پھر ایک انسان کے مارے جانے کو پوری انسانیت کے قتل کے برابر قراردینے والی آیت پڑھی)۔ یہ ہم نہیں کہتے اللہ کا حکم ہے، یہ ہوگا انشاءاللہ۔
عدالت میں لاپتہ گل محیط خان کے کیس کا نمبر پکارا گیاتو سرکاری وکیل نے بتایا کہ وارث کمیشن کے سامنے بھی پیش نہیں ہوتے، ہوسکتا کہ وہ واپس آگیا ہو۔ عدالت میں آواز گونجی کہ ہوسکتا ہے کہ ا س کے وارثوں نے امید چھوڑ دی ہو۔عدالت نے کمیشن کو ہدایت کی کہ چھ ہفتے میں رپورٹ دی جائے۔ سماعت جنوری کی نو تاریخ تک ملتوی کردی گئی۔