شیر آیا – ٹرمپ آیا
Reading Time: 4 minutesایک بات اب طے ہو گئی۔ مسلمانوں سے نفرت کی بنیاد پر بھڑکائے شعلوں کی حرارت سے وائٹ ہاﺅس پہنچا ڈونلڈٹرمپ محض گرجتا ہی نہیں برستا بھی ہے۔
1990کے وسط سے امریکی پارلیمان نے باقاعدہ قانون سازی کے ذریعے اپنی حکومت کو پابند کیا تھا کہ وہ یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کر لے۔ تل ابیب میں موجود امریکی سفارت خانے کو لہٰذا اس شہر منتقل کر دیا جائے۔
پارلیمان نے یہ قانون 1995میں بنایا تھا۔ کلنٹن سے اوبامہ تک جتنے بھی امریکی صدور تھے انہوں نے مگر ویٹو کے اختیارات استعمال کرتے ہوئے اس قانون پر عمل نہ کیا۔ اس قانون کی وجہ سے اپنی حکومت پر ”نازل“ مجبوری فلسطینی قیادت کو دکھا کر انہیںسمجھاتے رہے کہ وہ اسرائیل کے ساتھ کوئی دیرپا امن کو یقینی بنانے والا سمجھوتہ کر لے۔
سمجھوتے کے حصول کے لئے سب سے زیادہ کاوش صدر کلنٹن نے کی تھی۔ اس کے زمانے میں یاسر عرفات بھی زندہ تھے۔ کچھ طے پا جاتا تو شاید اس پر عمل درآمد بھی ہو جاتا۔ یاسر عرفات کو مگر ”دیندارعربوں“ نے ”سیکولر“ پکار کر معتوب بنا رکھا تھا۔ اس کی PLOکو کمزور کرنے کے لئے جہادی جذبات کی بنیاد پر حماس کو طاقت ور بنا دیا گیا۔ حماس ”مکمل آزادی“ سے کم کسی بات پر راضی نہ ہوئی۔ یہودیوں اور فلسطینیوں کا اسرائیل کے قبضے میں موجود زمین کی تقسیم کی بدولت بنی دو ریاستوں میں رہنا ناممکن ہو گیا۔
بات چل نہ پائی تو اسرائیل مزید انتہا پسند ہوتا چلا گیا۔ اس کا موجودہ وزیراعظم نیتن یاہو مذہبی انتہا پسندی کا ایک انتہائی ہوشیار چہرہ ہے۔ اس نے”ایک ہی خطہ میں“ دو آزاد ریاستوں کے تصور کو حقارت سے ٹھکرا دیا۔
یہودیوں نے 1967کی جنگ کے بعد فلسطینیوں سے تاریخی طور پر منسلک زمینوں پر قبضے کر کے وہاں ہاﺅسنگ کالونیاں بنانا شروع کر دیں۔ امریکہ اور یورپ میں موجود کئی یہودیوں نے اس آباد کاری کے فروغ کے لئے چندے جمع کئے۔ ٹرمپ کا داماد کشنر بھی ایسے لوگوں میں شامل ہے۔ ٹرمپ کی چہیتی بیٹی -ایوانکا- کے شوہر کا خاندان انتہا پسند یہودی ہے۔ کشنر تقریباً نیتن یاہو کی گود میں پلا ہے۔ 38سال کا ہے اور ان دنوں اس کی دوستی سعودی عرب کے 32سالہ محمد بن سلمان سے بہت گاڑھی ہے۔
یہ بات عیاں ہو چکی ہے کہ وائٹ ہاﺅس پہنچ جانے کے بعد ٹرمپ مشرق وسطیٰ کے بارے میں فیصلہ سازی کے عمل میں اپنی وزارتِ خارجہ اور دیگر حکام کو نظرانداز کرتے ہوئے کشنر کی رائے کو ترجیح دیتا ہے۔ یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کر لینے کا امریکی فیصلہ بھی بنیادی طور پر اس نے کروایا ہے۔ عرب صحافیوں کی اکثریت کا اصرار ہے کہ اپنے سسر کو اس فیصلے پر قائل کرنے سے قبل کشنرنے شاہزادہ محمد بن سلمان کو بھی اعتماد میں لیا تھا۔ سعودی عرب کی مبینہ رضا مندی کے بعد عرب ممالک کی اکثریت کو ٹرمپ کے بدھ کے روز کئے فیصلے کی حقیقی مزاحمت دکھانے میں کامیابی نہیں ہو گی۔ محض مذمتی بیانات جاری ہوں گے۔ کئی مسلمان ملکوں میں اگرچہ اس فیصلے کے خلاف پُرجوش مظاہرے بھی دیکھنے کو مل سکتے ہیں۔ وہ جنہیں ”مسلم دہشت گرد“ کہا جاتا ہے، شاید بدھ کے روز ہوئے اعلان کے بعد امریکہ میں چند ”خودکش“ یا ”فدائی“ اقدامات اٹھانے پر مجبور ہو سکتے ہیں۔ دنیا کے مختلف ممالک میں موجود امریکی سفارت خانے اور دیگر دفاتر بھی دہشت گردی کا نشانہ بن سکتے ہیں۔ فیصلہ مگر ہو چکا ہے اور اس کی بلندآہنگ اور وسیع ترمذمت کے باوجود تبدیلی کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی۔ آج کی دنیا کی واحد سپر طاقت نے اپنی بے پناہ قوت کے نشے میں دھونس جمائی ہے جس کا مناسب توڑ بھڑکوں کی عادی ”اُمہ“ کے پاس موجود نہیں۔
مسلمانوں کی اجتماعی بے بسی کے تناظر میں بحیثیت پاکستانی ہمیں بدھ کے روز ٹرمپ کے اعلان کردہ فیصلے کو ایک اور حوالے سے بھی دیکھنا ہو گا۔ اگست 2017 کے اواخر میں اسی ٹرمپ نے ”نئی“ افغان پالیسی کا اعلان بھی کیا تھا۔ اس پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے امریکی صدر نے پاکستان کو افغانستان میں اس کی مشکلات کا واحد ذمہ دار ٹھہرایا۔ الزام لگایا کہ ہم افغانستان میں متعین امریکی فوج کو نشانہ بنانے والے افراد کو پاکستان میں ”محفوظ پناہ گاہیں“ مہیا کر رہے ہیں۔
ہماری سیاسی اور عسکری قیادت نے یکسو ہو کر اس الزام کو مسترد کر دیا۔ ایمان کی حرارت سے مالا مال ہمارے کئی دفاعی مبصر تواتر کے ساتھ کہے چلے جا رہے ہیں کہ پاکستان افغانستان کے حوالے سے امریکہ کے لئے جو بھی کر سکا کر دیا ہے۔ ہم سے اب Do Moreکا تقاضہ نہ کیا جائے۔ ہمارے No More پر توجہ دی جائے۔
ہمیں Do More پر لیکن قائل کرنے امریکی وزیر خارجہ چند ماہ قبل اسلام آباد آیا تھا۔ ہم نے اسے خالی ہاتھ واپس بھیج دیا۔ اس ہفتے کے آغاز میں امریکی وزیر دفاع، جنرل میٹس بھی ایک روز کے لئے پاکستان آیا۔ ہمارے وزیراعظم سے ملا۔ GHQ جا کر جنرل باجوہ سے بھی دو گھنٹوں تک پھیلی ایک ملاقات کی اور Do More کے بجائے Redouble کا تقاضہ کرتے ہوئے یہاں سے براستہ کویت اپنے وطن لوٹ گیا۔
امریکی وزیر دفاع کی پاکستان آمد سے دو روز قبل مگر سی آئی اے کے سربراہ نے امریکی راست کیلیفورنیا میں ”فاتح افغانستان“ -صدر ریگن- کی یاد میں ہوئی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے واضح الفاظ میں اعلان کیا کہ پاکستان نے جنرل میٹس کے دورہ¿ پاکستان کے دوران اٹھائے تقاضوں پر عمل نہ کیا تو سی آئی اے اور دیگر امریکی ادارے اپنے طورپر ”پاکستان میں موجود دہشت گردوں کی پناہ گاہوں“ کو تباہ کرنے کا تہیہ کئے ہوئے ہیں۔
سی آئی اے کے سربراہ کے اس بیان کو ہم ”شیر آیا- شیر آیا“ والی پکار سمجھ کر نظرانداز کر سکتے تھے۔ یہ تصور کرنا بھی کچھ اتنا غلط نہ تھا کہ جنرل میٹس کی پاکستان آمد سے قبل سی آئی اے کا سربراہ Bad Cop والا رویہ اختیار کر رہا ہے تاکہ امریکی وزیر دفاع Good Cop کی طرح "Straight Forward” باتیں کرتے ہوئے پاکستانی حکام سے اپنی بات منوا سکے۔
ٹرمپ کی جانب سے بدھ کے روز یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کے اعلان کے بعد ہمیں اپنی اس سوچ پر ازسرنو غور کرنا ہو گا کیونکہ یہ بات عیاں ہو گئی کہ ٹرمپ کا امریکہ اب صرف گرجتا ہی نہیں برستا بھی ہے۔
ارادے واشنگٹن میں اب صرف پاکستان میں ڈرون حملے بڑھانے اور انہیں قبائلی علاقوں سے باقاعدہ شہروں تک پھیلانے تک محدود نہیں رہے۔ ”پاکستان کو سبق“ سکھانے کے منصوبے ڈرون حملوں سے بہت آگے بڑھ کر بنائے جا رہے ہیں۔ سانحہ ماڈل ٹاﺅن کے بارے میں نجفی رپورٹ اب منظر عام پر آ چکی ہے ۔ ٹی وی سکرینوں پر اس کا ضرورت سے زیادہ پوسٹ مارٹم بھی ہو چکا۔ مناسب ہو گا کہ اب تھوڑی توجہ امریکہ کی افغانستان کے بارے میں اعلان کردہ ”نئی“ پالیسی پر بھی دی جائے۔
بشکریہ نوائے وقت