اپنے قاتل کے نام
Reading Time: 2 minutesبہت طویل رہی وہ مدت جب میں بھی صرف بند کمروں میں تمہارے ظلم کو ظلم کہتا۔ سبب اس کا بزدلی کے سوا کچھ نہ تھا مگر میں تو دانشور تھا سو اپنی دانش کو کام میں لا کر سچ صرف بند کمرے میں بولنے کے بڑے شاندار جواز گھڑ لیا کرتا تھا۔
میں تم سے بہت ڈرتا تھا، میں کالے شیشے والی گاڑی دیکھ کر آیت الکرسی کا ورد شروع کر دیا کرتا تھا، گلی کے نکر پر دو اجنبی کھڑے نظر آ جاتے تو واپس گھر میں گھس جاتا تھا، دوستوں میں تمہارے ایجنٹ تلاش کرتا رہتا تاکہ کہیں ان کے سامنے بند کمرے والا سچ نہ بول دوں۔ کتنا پاگل تھا میں کہ ریاست کو مضبوط کرنے کے چکر میں عوام کو ہی کمزور کرتا رہا اور اسے دانش بھی سمجھتا رہا۔
میں سمجھ ہی نہ سکا کہ عوام کمزور ہوں تو ریاست نہیں صرف ایک ادارہ مضبوط ہوتا ہے۔ عوام مضبوط ہوں تو ریاست اور اس کا ہر ہر جزو یکساں قوت کا حامل ہوتا ہے۔ لیکن آج میں تمہارا احسان مند ہوں۔ تم نے مجھے اتنا ڈرایا کہ میرے لئے ڈر ہی بے معنیٰ ہوگیا، اب میں سچ بولنے سے پہلے کمرے کا دروازہ نہیں بند کرتا، اب میں کالے شیشے والی گاڑی دیکھ کر آیت الکرسی کا ورد شروع نہیں کرتا، اب میں ہر دوست کو تمہارا نمائندہ سمجھ کر تمہیں خوب گالیاں دیتا ہوں تاکہ وہ تم تک پہنچائے، اب میں گلی کی نکر پر کھڑے اجنبیوں کو اپنی اچٹتی نظر کے لائق بھی نہیں جانتا، اب میں "حکمت” کے نام پر کسی کو دھوکہ نہیں دیتا، اب میں ریاست کو نہیں عوام کو مضبوط کرنے کی بات کرتا ہوں کیونکہ جان گیا ہوں کہ ریاست عوام سے ہی مضبوط ہوتی ہے اداروں سے نہیں۔
اگرچہ زندگی بہت کم رہ گئی مگر اس بچی کھچی زندگی میں تمہارا یہ احسان کبھی نہ بھولوں گا کہ تم نے مجھے ٹھوکریں مار مار کر اس منزل تک پہنچا دیا جہاں زندگی سے موت بہتر لگنے لگی، یہی تو وہ منزل ہے جہاں بزدل بہادر بن جاتے ہیں۔ میرے قاتل ! میں تیرا کام کتنا آسان کر رہاں ہوں نا؟ کبھی تیری ریاستی طاقت کے سامنے میرا نہتا پن بھیگی بلی بنا رہا کرتا تھا، اب میرے نہتے پن کے حضور تیری ریاستی طاقت کے سجود کا وقت ہونے کو ہے، تو بس تیغ اٹھا اور پھر اپنی طاقت سے شرمندہ ہونے کا تماشا دیکھ ! میں روز انتظار کرتا ہوں، تم آتے نہیں، بہت مصروف ہو کیا؟ تم ڈیڑھ کروڑ لوگوں کو لاپتہ کرنے والے سٹالن سے زیادہ مضبوط ہو کیا ؟